انہیں ساری دنیا میں بس میب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ دنیا کے واحد ایتھلیٹ ہیں جنھوں نے نیو یارک میراتھن، بوسٹن میراتھن، اور اولمپک میڈل جیت رکھا ہے۔
جب میبراہتوم کیفلیزگی 1987ء میں امریکہ آئے، تو ان کی عمر 12 سال تھی اور وہ افریقہ کے جنگ زدہ ملک ایریٹیریا سے آئے ہوئے ایک پناہ گزیں تھے۔ انہیں بہت کم انگریزی آتی تھی۔ ان کے بال افریقی طرز سے کٹے ہوئے تھے، اور انہوں نے جس طرز کے کپڑے پہنے ہوتے تھے ویسے کپڑے اور کوئی نہیں پہنتا تھا۔ وہ اس زمانے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، “ہر ایک چیز مختلف تھی۔”
اب آپ 2014ء میں آ جائیے۔ صدر اوباما کی میزبانی میں وائٹ ہاؤس میں دی جانے والی ایک پُرتکلف ضیافت میں، میب شریک ہیں اور سابق صدر جمی کارٹر نے اُنہیں “یہاں موجود لوگوں میں سب سے زیادہ مقبول شخص ” قرار دیتے ہیں۔
میب ساتویں جماعت میں تھے جب انھوں نے دوڑنا شروع کر دیا۔ ان کے سامنے مقصد صرف یہ تھا کہ انہیں پڑھائی میں اے گریڈ اور اپنی جسمانی صحت کی کلاس میں ٹی شرٹ مل جائے۔ لیکن ان میں ایسی صلاحیتیں موجود تھیں جن کی بدولت انہیں ٹریک اینڈ فیلڈ اور طویل فاصلے کی دوڑوں کی دنیا میں شہرت حاصل ہوئی۔
جب انھوں نے وائٹ ہاؤس کی ضیافت میں شرکت کی، اس وقت تک بہت سے لوگ میب کو جان چکے تھے کیوں کہ انھوں نے اس سال کے شروع میں میب کو غیر متوقع طور پر بوسٹن میراتھن کا مقابلہ جیتتے ہوئے دیکھا تھا۔ سب کے لیے یہ بڑا جذباتی لمحہ تھا۔ 2013 کی اُس دوڑ کے بعد یہ پہلی دوڑ تھی جس میں بم کا حملہ ہوا تھا اور تین افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ میب نے عہد کیا تھا کہ وہ “بوسٹن کے لوگوں کے لیے، دوڑ میں حصہ لینے والوں کی کمیونٹی کے لیے، اور دنیا کے لیے کوئی مثبت کام کریں گے۔” دوڑ کے دوران میب نے اپنی بنیان پر جو” بِب ” پہنا ہوا تھا اس پر بوسٹن میں ہلاک ہونے والوں کے نام لکھے ہوئے تھے۔
انہوں نے ہمیشہ دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب میب سفر کرتے ہیں تو وہ اکثر ٹوئٹر پر یہ کہتے ہوئے ایک دعوت نامہ بھیج دیتے ہیں کہ “اپنا ایک گھنٹہ میب کے ساتھ گذارئیے۔” وہ کہتے ہیں کہ شوقیہ دوڑنے والوں کے ساتھ دوڑ میں حصہ لینا دراصل معاشرے کے احسانات کا بدلہ چکانا ہے۔ وہ کہتے ہیں “میں جب ہائی سکول میں تھا تو مجھے یہ کہنے کا کبھی موقع نہیں ملا کہ میں نے کسی اولمپیئن کے ساتھ دوڑ لگئی ہے۔ میں جب اپنے دوڑنے والے ساتھیوں کے ہمراہ ہوتا ہوں تو مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ ہم سب ایک جیسے سفر پر جا رہے ہوتے ہیں۔”
Come join me on a 3 mile Fun Run tomorrow evening @ 6:30pm from #garrettsrunshop in Manhattan Beach. #runsense #GPS #strand @EpsonAmerica
— meb keflezighi (@runmeb) May 16, 2016
میب کی عمر اب 41 سال ہے، اور آجکل وہ ریو ڈی جنیرو میں ہونے والے اولمپک مقابلوں میں شرکت کی تیاری کر رہے ہیں۔ اولمپک کھیلوں میں یہ ان کا چوتھا اور آخری مقابلہ ہوگا۔ وہ کہتے ہیں، ” سپورٹس نے مجھے بہت سی نئی چیزیں سکھائی ہیں، اور مجھے اس مقام پر پہنچا دیا ہے جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔”
میب “میب فاؤنڈیشن” نامی تنظیم کے روح رواں ہیں جو صحتمند زندگی کو فروغ دیتی ہے۔ (اس تنظیم کے نام میں اُن کے نام کا پہلا حصہ آتا ہے، مگر حقیقت میں یہ “Maintaining Excellent Balance.” کا یعنی ‘ شاندار توازن قائم رکھنے’ کا مخفف ہے۔”
انھوں نے ایریٹریا کے ورثے کو قائم رکھنے کی کوشش بھی کی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُس تنوع اور اُن فوائد کوبھی گلے لگایا ہے جو امریکہ کا خاصہ ہیں۔ 1998 میں وہ امریکی شہری بن گئے۔ وہ کئی بار اپنے آبائی وطن ایریٹیریا جا چکے ہیں۔ وہ وہاں دوڑنے والے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں، اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایریٹریا اور امریکہ کے درمیان “ایک پُل کے طور پر کام کریں۔”
“لوگ میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں، ‘آپ میرے ہیرو ہیں۔’ میں نہیں جانتا کہ اس بات کا کیا جواب دوں۔ میری کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ مثبت اقدامات کرنے میں ان کی حوصلہ افزائی کروں۔ وہی کچھ کییجیے جو آپ ہیں۔ دوسرے لوگوں سے ویسا ہی سلوک کیجیے جس طرح آپ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ کے ساتھ کریں۔ مسلسل آگے بڑھتے رہیے۔”