دو امریکی ماہرین حیاتیات و ماحولیات کی یاد اور اُن کے کارنامے

تھامس لو جوائے ایک برساتی جنگل میں لمبے پتوں والی ایک بڑی ٹہنی کے قریب برساتی پہنے ہوئے۔ (© Antonio Ribeiro/Gamma-Rapho/Getty Images)
اگست 1989 میں ماہر حیاتیات تھامس لو جوائے ایمیزونیا، برازیل میں۔ (© Antonio Ribeiro/Gamma-Rapho/Getty Images)

دو ایسے امریکی سائنس دان 2021 کے آخر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے جنہوں نے دنیا اور اس کے ماحولیاتی نظام کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔

ایڈورڈ او ولسن 26 دسمبر کو 92 برس کی عمر میں میساچوسٹس میں انتقال کر گئے۔ انہیں عام طور پر چارلس ڈارون کا وارث کہا جاتا تھا۔

تھامس ای لو جوائے بھی ماہر ماحولیات و حیاتیات تھے۔ اُن کا انتقال 25 دسمبر کو ورجینیا میں واقع اپنے گھر میں ہوا۔ اُن کی عمر 80 برس تھی۔ “حیاتیاتی تنوع” کی اصطلاح انہوں نے ہی متعارف کرائی تھی۔

ولسن کی چیونٹیاں اور ماحولیات

 ایڈورڈ ولسن ہتھیلی پر چیونٹیوں کے نمونے اٹھائے تصویر کھچوانے کے لیے کھڑے ہیں۔ (© AP Images)
“دا اینٹس” کے نام سے کتاب کے شریک مصنف، ایڈورڈ او ولسن 10 جون 1991 کو تصویر کھچوانے کے لیے کھڑے ہیں۔ اُن کو اپنی اس نثری تصنیف پر پلٹزر انعام ملا۔ (© AP Images)

اُن کی فاؤنڈیشن کے مطابق ایڈورڈ ولسن نے “کلیدی انواع کے تحفظ اور ہماری زندگیوں کو برقرار رکھنے والے اُن ماحولیاتی نظاموں کو غیر ارادی تباہی سے بچانے کے لیے حیاتیاتی حوالے سے ہمارے متنوع کرہ ارض” کو سمجھنے پر کام کیا۔

ولسن نے 1955 میں ہارورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور 1956 میں اسی یونیورسٹی میں پڑہانا شروع کر دیا۔ یہاں سے انہوں نے زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی شکلوں سمیت فطری دنیا کی تحقیق کی قیادت کی۔

ولسن کی میراث کے ایک حصے کا تعلق چیونٹیوں کے حیاتیاتی رویوں اور ان کی جینیاتی ساخت اور سماجی جبلتوں کے درمیان تعلق کے بارے میں زیادہ سے زیادہ ادراک سے ہے۔

انہوں نے 2008 میں پی بی ایس  ٹیلی ویژن کے نووا پروگرام کو بتایا، “ہر قسم کی چیونٹی کم و بیش ایک مختلف انسانی ثقافت کے برابر ہوتی ہے۔ لہٰذا [چیونٹیوں ] کی ہر نوع اپنے تئیں مطالعہ کرنے کے لیے ایک شاندار چیز ہے۔ درحقیقت مجھے یہ بالکل سمجھ نہیں آتی کہ لوگ چیونٹیوں پر غور کیوں نہیں کرتے۔”

ان کی انقلاب آفریں کتاب “دا اینٹس” نے 1991 میں پلٹزر انعام جیتا۔ یہ اُن کا دوسرا پلٹزر انعام تھا۔ اس سے قبل 1979 میں وہ اپنی کتاب “آن ہیومن نیچر” پر پلٹزر انعام حاصل کر چکے تھے۔ 2008 میں انہوں نے زمین پر موجود تمام انواع کو دستاویزی شکل دینے کے لیے انسائیکلوپیڈیا آف لائف کے نام سے ایک ویب سائٹ بنائی۔

برساتی جنگلات کے پرزور حامی: لو جوائے

 سمندری کچھوے کے پس منظر میں تھامس لوجائے تصویر کھچوانے کے لیے کھڑے ہیں۔ (© Dallas Kilponen/SMH/Fairfax Media/Getty Images)
دنیا کے سمندروں کے مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے تھامس لو جوائے 26 اکتوبر 2005 کو ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مہمان کی حیثیت سے آسٹریلیا میں۔ (© Dallas Kilponen/SMH/Fairfax Media/Getty Images)

تھامس لو جوائے برازیل میں ایمیزون کے جنگلات کے تحفظ کے لیے اپنے کام کے لیے جانے جاتے تھے۔

جب لو جوائے ییل یونیورسٹی  میں حیاتیات پر اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری پر تحقیق کر رہے تھے تو اُن کا پہلی بار ایمیزون  کے برسانی جنگلوں میں جانا ہوا۔ وہاں ان میں پرندوں سے متعلق ماحولیات کا مطالعہ کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس کے بعد وہ ماحولیاتی تحفظ پر زندگی بھر کام کرتے رہے۔

انہوں نے 2015 میں برازیل کے ایک سائنسی جریدے کو بتایا، “یہ ایک انتہائی دلچسپ کام تھا اور میں نے آہستہ آہستہ صرف سائنسی کام  کرنے سے سائنس اور ماحولیاتی تحفظ کی طرف جانا شروع کر دیا۔ ایمیزون کا شمار دنیا میں کام کرنے کے لیے اہم ترین جگہوں میں ہوتا ہے۔”

اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران لو جوائے نے 2016 سے لے کر 2018 تک امریکی محکمہ خارجہ کے سائنس کے ایلچی کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ اس دوران انہوں نے حیاتیاتی تنوع پر توجہ مرکوز  کی اور حکومتی عہدیداروں، سائنس دانوں اور طلباء سے تبادلہ خیالات کرنے کے لیے پیرو، برازیل، فلپائن، ملائیشیا اور کولمبیا کے دوے کیے۔ لو جوائے نے سمتھسونین انسٹی ٹیوشن، ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ اور جارج میسن یونیورسٹی میں بھی کام کیا جہاں وہ 2010 کے بعد سے پروفیسر کی حیثیت سے پڑہاتے رہے۔

شاید اُن کا سب سے اہم کام  یو ایس سمتھسونین انسٹی ٹیوشن اور برازیل کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایمیزونیئن ریسرچ کے تعاون سے شروع کیا گیا “بائیولاجیکل ڈائنامکس آف فاریسٹ فریگمنٹس پراجیکٹ” [جنگلات کی شکست و ریخت کی حیاتیاتی جہتیں] تھا۔ اس پراجیکٹ کا آغاز 1979 میں ہوا اور اسے آج تک کا دنیا کا سب سے بڑا اور طویل عرصے تک چلنے والا ماحولیاتی نظام کا پراجیکٹ مانا جاتا  ہے۔

لو جوائے نے ایمیزوں پر سائنس پینل کی پہلی رپورٹ میں سب سے زیادہ  حصہ ڈالا۔ یہ رپورٹ نومبر 2021 میں گلاسگو میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے کنونشن (کوپ 26) میں فریقین کی 26ویں کانفرنس میں پیش کی گئی تھی۔