جب ہارورڈ سے تعلیم یافتہ ماہر بشریات، آئزیاہ نینگو کے زیرقیادت ٹیم نے کینیا میں ایک چھوٹے چمپنیزی کی 130 لاکھ سال پرانی کھوپڑی دریافت کی تو یہ خبر دنیا بھر کے میڈیا میں نمایاں طور سے سامنے آئی۔

حیران کن بات یہ ہے کہ کینیا سے تعلق رکھنے والا یہ امریکی پروفیسر جس جگہ پڑھا رہا ہے وہ کوئی بڑی تحقیقی یونیورسٹی نہیں بلکہ کیلی فورنیا میں واقع ‘ڈی انزہ کالج’ نامی سرکاری ادارہ ہے جہاں دو سالہ کورس کرائے جاتے ہیں۔

ڈی انزہ کالج کے انتخاب کے سلسلے میں نینگو کہتے ہیں، “میں حقیقی معنوں میں مقامی کالج کے مقصد پر یقین رکھتا ہوں جس میں سبھی داخلہ لے سکتے ہیں کیونکہ یہاں ہم یہ نہیں پوچھتے کہ آپ کون سے (ثانوی) سکول گئے اور آپ کے گریڈ کیا تھے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ خود کو ایک نئے طریقے میں ڈھال سکتے ہیں۔” انہوں نے ڈی انزہ میں زیرتعلیم پسماندہ پس منظر کے حامل طالب علموں کو موسم گرما میں کینیا کے ترکانا طاس میں کھدائی کے لیے اپنے ساتھ لے جانے کی غرض سے وظائف کا اہتمام بھی کیا۔

نینگو کی نمایاں کامیابیوں نے امریکہ میں منفرد کردار ادا کرنے والے 1100 مقامی کالجوں کی جانب توجہ مبذول کرائی۔ امریکہ میں قریباً نصف انڈر گریجوایٹ اور دنیا بھر سے آئے 96 ہزار طالب علم اپنی تعلیم کا آغاز ایسے ہی تعلیمی اداروں سے کرتے ہیں۔ روایتی طور پر یہاں سالانہ ٹیوشن فیس چار سالہ کورس کرانے والے سرکاری تعلیمی اداروں کی نسبت آدھی ہوتی ہے۔ ان میں متعدد اداروں میں انگریزی کی جامع کلاسیں بھی ہوتی ہیں جن کی بدولت غیر ملکی طالب علموں کو پڑھائی میں کامیابی حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ہو سکتا ہے کہ دوسرے ممالک میں مضبوط مستقبل اور تکنیکی اداروں کی سہولت ہو مگر اِن میں سے کوئی بھی ادارہ طالب علموں کو یونیورسٹی ڈپلومہ کے لیے اس قسم کی ابتدائی بنیاد فراہم نہیں کرتا (بہت سے طالب علم کمیونٹی کالج سے دو سالہ کورس کر کے کالج میں چار سالہ ڈگری کی درمیانی مدت میں داخلہ لیتے ہیں۔)

غیر معروفیت

Students wearing graduation gowns and mortar boards (© AP Images)
کمیونٹی کالج سے حاصل کی گئی ڈگری سے بیچلر ڈگری کے حصول میں مدد ملتی ہے۔ (© AP Images)

کیلی فورنیا سٹیٹ یونیورسٹی، فُلرٹن کی پروفیسر ڈنگ جو کیوری کا کہنا ہے کہ ‘غیرملکی طالب علم عام طور پر یہاں اعلیٰ تعلیم کے مختلف اداروں کی موجودگی کے بارے میں آگاہ نہیں ہوتے۔”

کوسٹ لائن کمیونٹی کالج کی سابق صدر کہتی ہیں کہ جب ان طلبہ کو یونیورسٹی میں تبادلے کے امکان کا پتہ چلتا ہے تو وہ کہتے ہیں “واقعی؟ کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں؟”

گو کہ اس کی نہ تو کوئی ضمانت دی جاتی ہے اور نہ ہی یہ اس قدر آسان ہے مگر ریاست واشنگٹن کے شہر سیاٹل کے قریب واقع، گرین ریور کالج، اوبرن میں ہر سال سینکڑوں طلبہ کو یہ موقع ملتا ہے۔ سب سے اچھے طلبہ اعلیٰ درجے کی یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں جہاں انہیں ثانوی سکول کے بعد براہ راست داخلہ ملنے کا بہت کم امکان  ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف مشی گن میں زیرتعلیم ایک جاپانی طالب علم، آکی ساتوشی کا کہنا ہے، “گرین ریور نے مجھے اپنی ذات پر اعتماد کرنے میں مدد دی۔ پہلے پہل جب میں یہاں آیا تو مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں۔ تاہم جلد ہی میں نے اپنا مقصد پالیا۔”

انڈونیشیا میں جکارتہ سے تعلق رکھنے والی اندرا پرانابودی کہتی ہیں کہ گرین ریور “میرے لیے زبردست سہارا تھا جس نے مجھے آئیوی لیگ تک رسائی میں مدد دی۔” انہوں نے 19 سال کی عمر میں براؤن یونیورسٹی سے گریجوایشن کی اور اب بوسٹن میں سافٹ ویئر انجنیئر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

گرین ریور میں انٹرنیشنل پروگرام کی نائب صدر وینڈی سٹیورٹ کہتی ہیں کہ “ہم امریکہ آنے والے نئے لوگوں کو اچھا اور آسان آغاز فراہم کرتے ہیں۔”

Man walking up staircase in very large foyer painted yellow, red and white (© Anne Cusack/Los Angeles Times via Getty Images)
کیلی فورنیا میں ایل کامینو کی طرح، نو فیصد بین الاقوامی طالب علم کمیونٹی کالجوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ (© Anne Cusack/Los Angeles Times via Getty Images)

کیوری کا کہنا ہے کہ “بڑی یونیورسٹیوں کی نسبت یہاں کلاسوں میں طالب علموں کی تعداد کم ہوتی ہے جبکہ تدریسی شعبہ نہایت دلجمعی سے اپنا کام کرتا ہے۔ اس شعبے کے اساتذہ کی زیادہ توجہ پڑہانے پر مرکوز ہوتی ہے۔”

ایسے کمیونٹی کالجوں کی امریکی تنظیم کی نائب صدر، مارتھا پرہم کا کہنا ہے کہ “غیرملکی طالب علموں کے لیے ان اداروں میں ایک بڑی کشش یہ ہوتی ہے کہ وہ یہاں زیادہ اطمینان بخش طور سے مقامی ثقافت اور زبان سے آگاہی حاصل کرتے ہیں اور پھر یہاں سے چار سالہ ڈگری کے لیے یونیورسٹیوں کا رخ کر کے بہت سے پیسے بچا لیتے ہیں۔”

اور ہاں بعض طلبہ کو امریکہ سے دور آثار قدیمہ کی کھدائی جیسے کام کے باعث شہرت کا موقع بھی مل سکتا ہے۔