دھوکہ دہی والے انتخاب کا وقت قریب آنے پر، مادورو کی صحافیوں کے خلاف کاروائیوں میں تیزی

ایک نقاب پوش آدمی صحافیوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور فٹ پاتھ پر کھڑے کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں کیمرے ہیں (© AFP/Getty Images)
وینیزویلا کی انٹیلی جنس سیبن کا اہلکار 16 مئی 2019 کو کراکس میں صحافیوں کے سامنے کھڑا ہے۔ (© AFP/Getty Images)

ویینزویلا میں غیر آئینی اور دھوکہ دہی والے 6 دسمبر کے پارلیمانی انتخابات سے قبل، نکولس مادورو کی غیرقانونی حکومت صحافیوں کے خلاف کاروائیان کر رہی ہے۔

وینیزویلا کا آئین اظہار رائے کی آزادی کو تحفظ دیتا ہے، سنسرشپ کی ممانعت کرتا ہے اور معلومات تک رسائی کی ضمانت دیتا ہے۔

تاہم، 2014ء سے لے کر اب تک وینیزویلا پریس کی آزادی کے عالمی اشاریے میں مادورو کے صحافیوں اور اُن کی مطبوعات پر حملوں کی وجہ سے 31 درجے نیچے یعنی 180 ممالک میں سے 147ویں نمبر پر آ چکا ہے۔

محکمہ خارجہ کے مائیکل کوزیک نے کہا، “اس طرح کی حکومت کے تحت آزادانہ/منصفانہ انتخابات نہیں ہو سکتے۔ دنیا کو مادورو کو بہرصورت جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔”

مادورو کی غیرقانونی حکومت نے صحافی اور اپوزیشن پارٹی کے فعال رکن، رولینڈ کورینیو کو زبردستی اٹھایا اور  غائب کر دیا۔ میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق، کورینیو کے ہمسایوں نے انہیں آخری مرتبہ 26 اکتوبر کو دیکھا۔ ہمسایوں نے دیکھا کہ اس صحافی کے قریب ایک پرائیویٹ کار آئی اور انہیں زبردستی کار میں ڈال دیا گیا۔

کورینیو کو 48 گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد حکومت نے اعلان کیا کہ وہ جیل میں قید ہیں۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق، حکومتی وکلا کے سربراہ، ٹیرک ساب نے کہا کہ کورینیو کو “جمہوری امن کے خلاف سازشی منصوبوں میں شرکت” کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ساب پر بہت سی حکومتوں نے جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے پابندیاں لگا رکھی ہیں جن میں امریکہ اور یورپی یونین کے رکن ممالک بھی شامل ہیں۔

قانونی عبوری صدر خوان گوائیڈو نے کورینیو اور اسی طرح کے دیگر افراد کی جبری گمشدگی کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا، “ہم دنیا کو اِن (صحافیوں) کی جبری گمشدگی کے بارے میں مطلع کر رہے ہیں اور ڈکٹیٹرشپ کو اُن (صحافیوں) کی جسمانی اور ذہنی سلامتی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔”

کورینیو کی گمشدگی سے چھ دن پہلے، مادورو کے انٹیلی جنس کے ادارے، سیبن نے پورٹو اورڈاز میں واقع اخبار “کوریو ڈیل کیرونی” کے صدر دفتر پر چھاپہ مارا۔ صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی کے مطابق، سیبن کے لوگ ایک کمپیوٹر اور دستاویزات اٹھا کر لے گئے اور اخبار کے وکیل پر اخبار کے دفتر میں داخلے ہونے پر پابندی لگا دی۔

ٹیرک ساب اُن مائیکروفونوں کے ذریعے باتیں کر رہے ہیں جن کو لوگوں نے پکڑ رکھا ہے (© Federico Parra/AFP/Getty Images)
مادورو حکومت کے وکلا کے سربراہ، ٹیرک ساب 24 جنوری کو ہونے والی ایک اخباری کانفرنس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کر رہے ہیں۔ ساب نے حال ہی میں حراست میں لیے جانے والے صحافی، رولینڈ کورینیو کی جبری گمشدگی کا دفاع کیا۔ (© Federico Parra/AFP/Getty Images)

اس چھاپے کی اجازت دینے والے جج نے اخبار کی طرف سے کسی جرم کے کیے جانے کا کوئی الزام نہیں لگایا۔

سی پی جے کے مطابق، چھاپے کے بعد سیبن نے صحافی، ماریا رامیرز کابیلو اور ایک انتظامی ملازمہ، سوزانا رائس کو تحویل میں لے لیا۔ سیبن نے کسی وکیل کی موجودگی کے بغیر انہیں چھ گھنٹے تک حراست میں رکھا اور پوچھ گچھ کی جس کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔

بعد میں سیبن نے دستاویزات تو واپس کر دیں مگر کمپیوٹر واپس نہیں کیا۔

12 اکتوبر کو سیبن نے اخبار “کوریو ڈیل کیرونی” کے بانی اور ڈائریکٹر ڈیوڈ ناٹیرا فیبرس کے گھر پر چھاپہ مارا۔ ناٹیرا فیبرس 80 برس کے ہیں اور صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ سیبن انہیں اپنے ساتھ لے گئی اور انہیں زیرحراست رکھا۔ اس دوران سیبن نے ناٹیرا فیبرس سے اخبار کے اُن کے بیٹے سے مبینہ تعلق کے بارے  میں پوچھ گچھ کی۔ اُن کا بیٹا گوائیڈو کی عبوری حکومت کا رکن ہے۔ ناٹیرا فیبرس کو وکیل لانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔

ناٹیرا فیبرس کو بعد میں رات کو کسی الزام کے بغیر رہا کر دیا گیا۔

قومی اسمبلی کی رکن، ماریا کونسپسیوں مولینو کا کہنا ہے کہ اس سال کے آغاز سے لے کر آج تک کی یہ غیرقانونی کاروائیاں صحافیوں اور اُن کی مطبوعات کے خلاف اُن 700 واقعات کا حصہ ہیں جنہیں دستاویزات کی شکل میں محفوظ کیا جا چکا ہے۔ 18 نومبر کی تاریخ تک 365 سیاسی قیدی جیلوں میں بند تھے۔

کونسپسیوں مولینو نے کہا، “بین الاقوامی برادری کی جانب سے مسترد کیے جانے والے دھوکہ دہی والے پارلیمانی انتخابات میں دو ماہ سے بھی کم کا عرصہ رہ گیا ہے، اس کے باوجود یہ غاصب [مادورو] قانونی انتخابی حالات کی [اس عدم موجودگی] سے اب بھی مطمئن نہیں ہے۔ اس کے برعکس وہ اُس افراتفری [اور] بدعنوانی کو [چھپانے] کے لیے جس کے دوران اس ظلم نے وینزویلا کو ڈبو دیا ہے، … میڈیا پر حملوں میں تیزی لے آیا ہے۔”