1961 سے لے کر 1989 تک 155 کلو میٹر طویل کنکریٹ کی بنی دیواروں کے ایک سلسلے پر مشتمل خاردار تاروں کی رکاوٹ، دیوارِ برلن نے [برلن شہر کو] مغربی جمہوری برلن اور سوویت زیر انتظام مشرقی برلن میں تقسیم کیے رکھا۔
اشتراکی حکومت کے اس دعوے کے باوجود کہ کڑی حفاظت کی جانے والی یہ دیوار ایک دفاعی اقدام ہے، مشرقی جرمنوں کو مغرب میں آزادی کی تلاش میں جانے سے سختی سے روکا گیا۔ دیوارِ برلن کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریباً 200 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ذیل میں دی جانے والی تصاویر دیوارِ برلن کے گرائے جانے کی تیسویں سالگرہ کے موقع پر اشتراکی حکومت کے زیر انتظام مشرقی یورپ کے جبر اور 1989ء میں دوبارہ حاصل کی جانے والی آزادی کی خوشی کی عکاس ہیں:

مشرقی جرمنی کے سرحدی محافظوں نے 18 سالہ پیٹر فیچر کو اٹھا رکھا ہے جسے انہوں نے 17 اگست 1962 کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا جب وہ مغربی برلن بھاگ کر جانے کی کوشش کر رہا تھا۔

13 اگست 1961 کو ایک عمر رسیدہ جوڑا دیوار کے پار مشرقی جرمنی کے علاقے میں واقع ایک چیک پوائنٹ سے واپس جا رہا ہے۔ انہیں فوجیوں نے سرحد سے واپس بھجوا دیا تھا۔

مشرقی جرمنی کے مزدور کنکریٹ کے بلاکوں اور لوہے کی سلاخوں سے دیوارِ برلن کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ اشتراکی حکومت نے دیوار کو “فسطائیت کے خلاف دفاع” کا نام دیا جس کا مقصد مغربی لوگوں کو مشرقی جرمنی میں داخل ہونے اور اس کی حکومت کو کمزور کرنے سے روکنا تھا۔ یہ دیوار اشراکی ظلم کی علامت بن گئی۔

مغربی برلن سے تعلق رکھنے والی عورت اُس مشرقی جرمن عورت کی قبر کی نشانی پر سوگ منا رہی ہے جسے اگست 1961 میں مشرقی برلن سے بھاگنے کی کوشش میں مار دیا گیا۔

مشرقی جرمنی کی حکومت کے اپنے شہریوں کو مغرب میں جانے کی اجازت دیئے جانے کے بعد 9 نومبر 1989 کو چند گھنٹوں کے اندر اندر لوگ جشن منانے کے لیے برینڈن برگ گیٹ کے قریب جمع ہو گئے۔

10 نومبر 1989 کو ایک عورت دیوار پر چڑھ رہی ہے۔

تین دہائیوں تک جبر کی علامت بنی رہنے والی دیوارِ برلن کو ایک شخص ہتھوڑے اور چھینی سے توڑ رہا ہے۔

مغربی برلن کے لوگ 9 نومبر 1989 کو سرحد عبور کرنے والے مشرقی جرمنی کے شہریوں کا استقبال کر رہے ہیں۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں اشتراکی حکومت گِر گئی اور مشرقی جرمنی وفاقی جمہوریہ جرمنی کا حصہ بن گیا۔ اس واقعہ نے منقسم جرمنی کو دوبارہ متحد کر دیا۔