
دیوارِبرلن نے تین دہائیوں تک برلن کے مغرب کے جمہوری علاقوں کو مشرق کے کمیونسٹ علاقوں سے جدا کیے رکھا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اتحادیوں نے برلن کو دو حصوں میں تقسیم کرنے پر اتفاق کیا۔ تاہم یہ دیوار بہت بعد میں تعمیر ہوئی۔ اس کا مقصد کمیونسٹ مشرق سے جمہوری مغرب کی طرف جرمنوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت کو روکنا تھا۔ 1989 میں گرائے جانے سے قبل یہ دیوار سرد جنگ کی تقسیم کی ایک نمایاں علامت بن چکی تھی۔
دیوار کے گرائے جانے کے بعد کے 32 برسوں میں کنکریٹ سے تعمیر کیے گئے اس متاثرکن ڈھانچے کے ٹکڑے پوری دنیا میں پہنچے۔
دا وال نیٹ ایک ڈیجیٹل پراجیکٹ ہے جو دنیا بھر میں دیوارِ برلن کے ٹکڑوں کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ وال نیٹ کے مطابق 5 میٹر اونچی، 165 کلو میٹر لمبی اِس دیوار کے ٹکڑے نہ صرف جرمنی بلکہ آسٹریلیا، برازیل، جاپان، میکسیکو، قطر، روس، سنگاپور، جنوبی افریقہ اور امریکہ سمیت درجنوں بھر دیگر مقامات پر پائے جاتے ہیں۔ تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے اور جمہوریت کے چاہنے والے اِن ٹکڑوں کو قیمتی قرار دیتے ہیں۔

الزبتھ ڈیلا ززیرا، یونیورسٹی آف کنیٹی کٹ ہیومینٹیز [بشریاتی] انسٹی ٹیوٹ میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد تحقیق معاونِ کار کے طور پر[دیوارِ برلن] کے ٹکڑوں کے گردش کرنے کے عمل کا مطالعہ کرتی ہیں۔ کچھ ٹکڑے عجائب گھروں کو تحفے یا عطیے کے طور پر دیئے گئے۔ دیوار گرانے میں جرمن عوام کا کردار بنیادی تھا۔ مگر دیوار گرانے میں مدد کرنے والے برطانوی فوجیوں کو برطانیہ کے فوجی عجائب گھروں کے لیے دیوار کے ٹکڑے لے جانے کی اجازت دی گئی۔
لوگوں نے دیوار کے ٹکڑے خریدے بھی۔ 1990 میں مشرقی جرمنی کی غیر ملکی تجارت کی وزارت نے دیوار کے حصوں کو فروخت کرنے کے لیے درآمد و برآمد کا کروبارکرنے والی ایک کمپنی کے ساتھ لائسنسنگ کا ایک معاہدہ کیا۔ دیوار کے 1.2 میٹر چوڑے ٹکڑے 60 ہزار ڈالر سے لے کر دو لاکھ ڈالر کے درمیان میں بکے۔
خریداروں کی زیادہ تر دلچسپی مغربی سمت میں سامنا کرنے والی دیوار کے ایسے ٹکڑے تھے جن پر گریفٹی اور آرٹ کا کام ہوا ہوا تھا۔ تاہم جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد دیوار کے حصوں کی قدر و قیمت گرنے لگی اور دیوار کی سادہ کنکریٹ کا بڑا حصہ سڑکوں اور عوامی بھلائی کے پراجیکٹوں میں استعمال ہوا۔

آج امریکی محکمہ خارجہ میں امریکی سفارت کاری کے قومی عجائب گھر میں دیوارِ برلن کا ایک 4 میٹر اونچا ٹکڑا رکھا ہوا ہے جس پر اُن 27 رہنماؤں کے دستخط ہیں جنہوں نے دیوار گرانے اور جرمنی کے دوبارہ اتحاد کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کیا تھا۔ ان میں آنجہانی امریکی صدر جارج ایچ ڈبلیو بش، سابق امریکی وزیر خارجہ جیمز بیکر، آنجہانی جرمن چانسلر ہیلمٹ کوہل، سابق سوویت وزیر اعظم میخائل گورباچوف اور پولش مزدور یونین کے رہنما اور نوبیل امن انعام یافتہ، لیخ واوینسا شامل ہیں۔
جرمنی کے شہر لائپزگ کے آرٹسٹ مائیکل فشر-آرٹ نے دیوارِ برلن کے ٹکڑے کے اِس حصے کو پینٹ کیا جس میں 1988-89 میں اس شہر میں ہونے والے مظاہروں کے دوران احتجاجی مظاہرین کو دکھایا گیا ہے۔ فشر-آرٹ نے بہت سے ایسے بینر بھی تیار کیے جن پر مظاہرین نے [جرمن زبان میں] یہ نعرے [“ہم عوام ہیں”] اور [“آزادی] لکھنے کے ساتھ جمہوریت کے حق میں پیغامات بھی لکھے گئے تھے۔

برلن کی سینیٹ نےسرکاری دوروں پر آنے والے مختلف ممالک کے رہنماؤں کو دینے کے لیے دیوار کے 30 حصے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔
ڈیلا ززیرا لکھتی ہیں، “اپنے وجودی اجزاء کے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی، [علیحدہ علیحدہ] ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی ہوئی، آج یہ دیوار ایک رکاوٹ نہیں بلکہ اس کی بجائے یہ تقسیم اور اتحاد، تنازعات اور صلح، پابندی اور آزادی کی ایک یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے۔ اِن تمام صورتوں میں جب اس اہم علامت کو ایک مختلف قسم کے سیاق و سباق کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے تو نئے ماحول میں یہ اپنے اندر نئے معانی لیے ہوئے ہوتی ہے۔”