![بیلے کی رقاصہ نے ڈانس کرتے ہوئے ہاتھ میں نٹ کریکر [سروتا] پکڑا ہوا ہے (© Derek Davis/Portland Portland Press Herald/Getty Images) بیلے کی رقاصہ نے ڈانس کرتے ہوئے ہاتھ میں نٹ کریکر [سروتا] پکڑا ہوا ہے (© Derek Davis/Portland Portland Press Herald/Getty Images)](https://share.america.gov/wp-content/uploads/2022/11/ballet_nutcracker_clara_nutcracker_GettyImages-628314734-1068x720.jpg)
بہت سے امریکی گھرانوں میں ‘دی نٹ کریکر‘ نامی بیلے کے بغیر کرسمس مکمل نہیں ہوتی۔
یہ بیلے چھوٹے بڑے لاکھوں امریکیوں کی کرسمس کے تہوار کی ایک یپسندیدہ روایت ہے۔
پیارے سے ‘شوگر پلم فیئری’ اور ‘نٹ کریکر’ نامی رقص کرنے والے کردار جب ‘ ماؤس کنگ’ نامی شیطان صفت کردار کے خلاف لڑائی میں حقیقت کا روپ دھارتے ہیں تو اِس مقبولیت کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔
یہ بیلے پہلی مرتبہ دسمبر 1892 میں سینٹ پیٹرزبرگ میں پیش کیا گیا جس کی موسیقی انیسویں صدی کے موسیقار پیوٹور چیکاؤسکی نے اور کوریوگرافی میریاس پٹیپا اور لیف ایوانوف نے ترتیب دی تھی۔ اس بیلے کی کہانی کا مرکزی خیال ای ٹی اے ہوفمین کی ‘ دی نٹ کریکر اینڈ دی ماؤس کنگ’ کے نام سے لکھی گئی کہانی سے اخذ کیا گیا ہے۔

انتہائی مقبول بیلے
بعض امریکی بیلے کمپنیوں کے حوالے سے ‘دی نٹ کریکر‘ کو دیکھنے لگ بھگ اتنے لوگ آتے ہیں جتنے کے پورے سال میں پیش کیے جانے والے دیگر بیلے شوز کو دیکھنے آتے ہیں۔ نیویارک سٹی بیلے کمپنی دنیا کی چوٹی کی بیلے کمپنی ہے۔ روئٹر کے مطابق 2021 میں پورے سال میں فروخت ہونے والی اس کی ٹکٹوں کا 45 فیصد حصہ تقریبا پانچ ہفتے چلنے والے ‘دی نٹ کریکر‘ بیلے سے حاصل ہوا۔
چونکہ اس بیلے کے کرداروں میں بہت زیادہ بچے شامل ہیں اس لیے امریکہ بھر کے بیلے سکول بھی اس بیلے کے اپنے اپنے ورژن پیش کرتے ہیں۔
یہ سکول بچوں کے والدین، دادے دادیوں نانے نانیوں اور نوجوان لوگوں کی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں اور اِن میں سے بہت سوں کو بیلے اور کرسمس کی ایک نئی روایت سے روشناس کراتے ہیں۔

2021 میں نیویارک سٹی بیلے کے آرٹ ڈائریکٹر جوناتھن سٹیفورڈ نے پی بی ایس ٹیلی ویژن کو بتایا کہ “ہمارے سامعین میں ایس لوگ بھی ہیں جنہوں نے یہ بیلے بچپن میں دیکھا تھا اور اب وہ یہ بیلے دیکھنے کے لیے اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ آتے ہیں۔”
بیشتر امریکی خاندانوں کا کرسمس پر ہال میں جا کر براہ راست یہ بیلے دیکھنا اس تہوار کی ایک رسم بن چکا ہے۔ مگر جو لوگ ایسا نہیں کر سکتے وہ 1977 کا ” باریشنکوف کا نٹ کریکر” دیکھتے ہیں جس میں میخائل باریشنکوف نے اداکاری کی ہے۔ 78 منٹ کا یہ بیلے بہت سے پبلک ٹیلی ویژن سٹیشنوں یا سٹریمنگ سروسز پر دستیاب ہے۔
امریکیوں کو اس کلاسیکی شاہکار میں نئی جہتوں کا اضافہ کرنا بھی اچھا لگتا ہے۔ کئی امریکی شہروں میں دکھائے جانے والے ‘ دی ہپ ہاپ نٹ کریکر‘ میں چیکاؤسکی کی کلاسیکی موسیقی میں موجودہ دور کی موسیقی اور ہپ ہاپ ڈانسر بھی شامل ہوتے ہیں۔
بعض جگہوں پر پیش کیے جانے شوز کو ایسے خاندانوں کے لیے خصوصی طور پر تیار کیا جاتا ہے جن کے گھر کا کوئی فرد آٹزم یا دیگر حِسی حساسیات سے دوچار ہوتا ہے۔
امریکہ میں روسی بیلے کی روایات کا ورثہ

نیٹالی رولینڈ روسی ادب، ثقافت اور پرفارمنگ آرٹس کی سکالر ہیں۔ وہ امریکہ کے بہت سے لوگوں کو بیلے سے متعارف کرانے کا سہرا روسی ڈانسروں، سرگئی ڈیاگیلیف، مشیل فوکین اور اینا پاولووا اور دیگر کے سر باندھتی ہیں۔ اِن سب نے 1909 اور 1929 کے درمیان اپنی کمپنیوں کی طرف سے امریکہ کے دورے کیے۔
امریکی بیلے کی ابھرتی ہوئی دو مشہور شخصیات، کوریو گرافر جارج بیلن شین اور ڈانسر الیگزینڈرا ڈینیلووا دونوں ہی سینٹ پیٹرزبرگ میں پیدا ہوئے۔
بیلن شین نے 1934 میں سکول آف امریکن بیلے اور 1948 میں نیو یارک سٹی بیلے کی بنیاد رکھی۔ ڈینیلووا نے قومی اور مقامی کمپنیوں کے ڈانسروں کو “روسی تھیٹر کے نظام کی “پرمشقت تکنیکوں اور شاندار ذخیرے” سے متعلق تربیت دی۔ تربیت پانے والوں کا تعلق دیگر کے علاوہ امریکن بیلے تھیٹر، سان فرانسسکو بیلے، سِنسیناٹی بیلے اور واشنگٹن بیلے سے تھا۔
“روسی بیلے کے آرٹ نے امریکہ کے [ثقافتی] منظرنامے کے لیے دیرپا ورثہ چھوڑا ہے اور ‘دی نٹ کریکر‘ کی رسوماتی روایت کے ذریعے اس کا ماضی ہر کرسمس پر حال بن جاتا ہے۔”
گزرے ہوئے برسوں میں امریکہ اور روس کے تعلقات بہت سے مراحل سے گزرے ہیں۔ یوکرین میں پیوٹن کی جنگ سے پہنچنے والے نقصان کے باوجود طویل عرصے سے چلی آ رہیں ‘دی نٹ کریکر‘ جیسی روسی۔امریکی روایات روسی عوام کے ساتھ امریکہ کے مسلسل ثقافتی بندھنوں کو اجاگر کرتی ہیں۔