ایک ماں بچے کو اٹھائے ہوئے ہے جب کہ ایک ڈاکٹر کے ہاتھ میں ویکسین کی ٹیوب ہے۔ (© AP Images)
خسرے کے خاتمے کے لیے بچوں کو ٹیکے لگانے کی برسوں کی سخت کوششیں بارآور ثابت ہوئی ہیں۔ (© AP Images)

27 ستمبر کو صحتِ عامہ کے بین الاقوامی ماہرین نے اعلان کیا کہ شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ کے برِ اعظموں سے خسرے کا مکمل طور سے خاتمہ ہو گیا ہے-

صحت کی بین الامریکی تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ کارنامہ شمالی، جںوبی اور وسطی امریکہ کے پورے خطے میں 22 سال تک حفاظتی ٹیکے لگانے کی مہموں کے بعد سرانجام پایا۔

خسرے کا مرض شدید قسم کا ایک متعدی وائرس ہے جو مریض کی ناک اور گلے میں موجود بلغم میں پایا جاتا ہے۔ کھانسی اور چھینک کے ذریعے، یہ دوسرے لوگوں کو لگ جاتا ہے۔

صحت کی بین الامریکی تنظیم کی ڈائریکٹر، کاریسا ایف ایٹینے کا کہنا ہے، “یہ دن ہمارے خطے کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔”

1980ء میں وسیع پیمانے پر حفاظتی ٹیکے لگائے جانے سے قبل، خسرے سے ہر سال دنیا  بھر میں تقریباً 26 لاکھ اموات ہوجایا کرتی تھیں۔

اس گروپ کا کہنا ہے کہ خسرہ پانچویں ایسی بیماری ہے جسے شمالی اور جنوبی امریکہ کے برِ اعظموں سے ویکسین کے ذریعے ختم کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل، بعض علاقوں سے 1971 میں چیچک، 1994 میں پولیو اور  2015 میں جرمن خسرے اور پیدائشی جرمن خسرے  کا ویکسین سے خاتمہ کر دیا گیا تھا۔

اگرچہ خسرے کا شمالی اور جنوبی امریکہ کے برِ اعظموں سے “خاتمہ” کر دیا گیا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب اس علاقے کے ملکوں میں خسرے کا مرض کسی کو نہیں ہوگا۔ “خاتمے” کا مطلب یہ ہے کہ خسرے کا مرض مذکورہ علاقوں میں اب مستقل بنیادوں یا وبا کی صورت میں نہیں ظاہر ہو گا۔

عہدے داروں نے انتباہ کیا ہے کہ بچپنے کی یہ انتہائی متعدی بیماری اس علاقے میں اب بھی ان لوگوں کے ذریعے آ سکتی ہے جو ایسے علاقوں سے سفر کر کے آتے ہیں جہاں اس بیماری کی وبا پھوٹتی رہتی ہے۔

صحتِ عامہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے ہمارا مقصد یہ ہے کہ خسرے کو ساری دنیا سے اسی طرح ختم کر دیا جائے جس طرح دنیا سے چیچک کا مکمل طور سے اور پولیو کا تقریباً پوری طرح خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ ایٹینے کہتی ہیں کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو تب ہی حاصل کی جا سکتی ہے جب سبھی ملک اکٹھے مل کر کام کریں۔

اس مضمون کی تحریر میں وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ سے استفادہ کیا گیا ہے۔