
ماسکو میں پلی بڑھی الیگزینڈرا پروکوپینکو 2022 میں روس کے مرکزی بنک میں کام کرتی تھیں۔ وہ اپنے اس کام سے خوش تھیں اور ایک وسیع جنگل کی یاد دلانے والے مشچرسکی پارک میں دوڑنے سے لطف اندوز ہوا کرتتی تھیں۔
یوکرین پر روس کے 2022 کے بھرپور حملے کے بعد وہ جرمنی منتقل ہو گئیں۔ انہیں ماسکو یاد تو آتا ہے مگر اُن کے خیال میں اُن کے لیے اب ماسکو میں کوئی موقع نہیں رہا۔
پروکوپینکو نے نیشنل پبلک ریڈیو کو بتایا کہ “میرا خیال نہیں کہ روسی حکام اسے تسلیم کریں گے مگر ہم نے ذہانت کا ایک بہت بڑا انخلا ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔”
اپنی مہارتوں کا دوسرے ممالک میں استعمال
نوجوان روسی جوق در جوق اپنا وطن چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے موجودہ انخلا کو “1917 کے بالشویک انقلاب اور 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ترک وطن کی اٹھنے والی لہر کی طرح کی ایک لہر” قرار دیا ہے۔
2022 کے بعد سے اب تک ایک ملین روسی ملک چھوڑ کر جا چکے ہے۔ اِن میں اندازاً ایک لاکھ آئی ٹی کے ماہرین بھی شامل ہیں جو کہ ٹکنالوجی کے شعبے کی مجموعی تعداد کا 10 فیصد بنتے ہیں۔

‘ستقبل کے بارے میں ناامیدی’
بہت سے نوجوان، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور غیرملکی زبانیں بولنے والے اور بیرونی ملکوں کا سفر کرنے والے روسی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ روس سے باہر ان کا مستقبل بہتر رہے گا۔
ولادیمیر بیلوگین ماسکو میں قائم ‘یانڈیکس’ نامی سرچ انجن کی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ روس کے یوکرین کے خلاف جنگ شروع کرنے کے ایک ہفتے بعد انہوں نے ملازمت چھوڑی اور قبرص چلے گئے۔ اپنے روس میں رہنے کے بارے میں بیلوگین نے بتایا کہ “میرے خیال میں [یہاں اب] کوئی مستقبل نہیں۔”
ٹموتھی فرائی کولمبیا یونیورسٹی میں پولٹیکل سائنس کے پروفیسر اور روسی امور کے ماہر ہیں۔ انہوں نے شیئر امیریکا کو بتایا کہ “جنگ اور ہجرت روسیوں کی ایک ایسی پوری نسل سے مخاطب ہیں جو یہ محسوس کرتی ہے کہ اُن کا مستقبل اُن سے چرا لیا گیا ہے۔ اس طبقے کے لوگ دنیا کے شہری بننے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ مگر اب اُنہیں یہ متبادل دستیاب نہیں۔”

ملک چھوڑنے کی مختلف وجوہات
ترک وطن کر کے آرمینیا اور جارجیا جانے والے روسی شہریوں نے نومبر 2022 اور جنوری 2023 میں ہارورڈ یونیورسٹی کی طرف سے کیے گئے انٹرویوز (پی ڈی ایف، 1 ایم بی) کے دوران اہمیت کے لحاظ سے اپنا ملک چھوڑنے کی مندرجہ ذیل تین وجوہات بیان کیں:-
- ایک جابرانہ سیاسی ماحول۔
- روس کی یوکرین کے خلاف جنگ۔
- فوجی سروس کے لیے مردوں کو طلب کرنا۔
مذکورہ بالا دونوں ممالک میں روس سے آنے والے جن تارکین وطن کے انٹرویو کیے گئے اُن کی عمریں 30 برس یا اس سے تھوڑی سی زیادہ تھیں۔
فروری 2022 کے روس کے یوکرین پر حملے سے قبل بھی روسی شہری اپنا ملک چھوڑ کر جا رہے تھے۔
2020 میں ایک انخلا کا آغاز ہوا۔ یوکرین میں امریکہ کے سابق سفیر جان ہربسٹ نے بتایا کہ بہت سے روسیوں نے اپنا ملک یا تو بہتر معاشی مواقعوں کی خاطر چھوڑا یا اس لیے چھوڑا کیونکہ وہ بدعنوانی اور جبر کی وجہ سے مایوس ہو چکے تھے۔ ہربسٹ روس سے ذہین لوگوں کے انخلا کے بارے میں 2019 کے ایک جائزے (پی ڈی ایف، 4 ایم بی) کے مشترکہ مصنف تھے۔ اس جائزے کے لیے کیے جانے والے سروے میں یورپ اور امریکہ میں رہنے والے 400 روسی تارکین وطن شامل تھے۔
ہربسٹ نے کہا کہ “یہ تب بھی ذہین لوگوں کا سنگین انخلا تھا اور اب بھی ہے۔ وہ جو ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں اُن میں اکثریت زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ کاروباری ذہن کے مالک تھے۔ یہ روسی معیشت کے لیے صریحی نقصان ہے۔”
ذہین لوگوں کا دیگر ممالک کا رخ کرنا
روس کا نقصان دنیا کے دیگر حصوں کا فائدہ بن کر سامنے آیا ہے۔
سنتھیا بکلے ایلانائے یونیورسٹی میں سوشیالوجی کی پروفیسر ہیں۔ انہوں نے شیئر امیریکا کو بتایا کہ اپنے ملک چھوڑ کر آرمینیا، آذربائیجان اور جارجیا جیسے ممالک میں جا بسنے والے روسی یا تو چلتے کاروبار خرید رہے ہیں یا وہ کیفے، ٹائروں کی دکانیں، چھوٹے زرعی فارم اور چھوٹی جائیدادیں خریدنے جیسے کاروبار شروع کر رہے ہیں۔ یہ ممکن تھا کہ یہ سرمایہ کاریاں روس کے اندر ہی کی جاتیں۔

فرانس کے بین الاقوامی تعلقات کے انسٹی ٹیوٹ کی جولائی 2023 کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ ملک چھوڑ کر جانے والے روسی “ذاتی محنت سے کامیاب ہونے والے اور آزاد ذہن کے مالک” تھے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ روسیوں کے “سرمائے کا انخلا” مجموعی طور 30 ارب ڈالر سے زیادہ بنتا ہے۔
ایسے ذہین لوگ بھی ملک چھوڑ کر جا رہے جن کا تعلق آرٹ، تفریح یا سائنس کے اُن شعبوں سے ہے جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ ترک وطن کرنے والیں اعلٰی شخصیات کریملن کو “غیرملکی ایجنٹوں” کے قانون کے تحت روس پر تنقید کرنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایک مشہور ہدایت کار، الیگزینڈر مولچنکوف نے یوکرین میں روس کی جنگ پر تنقید کے بعد ملک چھوڑا۔ انہوں نے لکھا کہ “بہت سارے آرٹسٹوں کے ملک سے جانے کی صرف ایک ہی وجہ ہے۔ وہ وجہ یہ ہے کہ روسی حکام جسے ‘خصوصی آپریشن’ کہتے ہیں، دنیا اُسے حملہ کہتی ہے۔ اس کے بارے میں منفی رائے کا اظہار کرنا غیر محفوظ اور خطرناک ہے۔”
مولچنکوف نیویارک میں ہیں اور کولمبیا یونیورسٹی میں زیرتعلیم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ “دوبارہ سٹیج ڈراموں کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں … [وہ] ماسکو کے آرٹ کے ماحول میں پیچھے رہ جانے والے رفقائے کار کے لیے محفوظ راستے تلاش کر رہے ہیں۔”