ذیلی صحارا، افریقہ میں ایڈز سے منسوب بدنامی کے خلاف آگاہی

ایڈز سے چھٹکارا پانے کے لیے امریکی صدر کے ہنگامی منصوبے کے تحت، جسے عام طور پر ‘پی ای پی ایف اے آر’ [پیپ فار] کہا جاتا ہے، 2020 تک 13 افریقی ممالک میں ایچ آئی وی/ ایڈز کی وبا پر قابو پانے کی غرض سے حالیہ دنوں میں ایک نئی تیز رفتار حکمت عملی کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ اس بیماری کی جلد تشخیص سے متعلق ہے تاکہ مریضوں کا فوری علاج شروع کرکے وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

مگر اس میں کامیابی کا راز یہ ہے کہ جب لوگ ایچ آئی وی/ ایڈز کے ماہرین کی بات کھلے بندوں سنتے اور ان سے گفتگو کرتے ہیں تو اس منصوبے کے بہترین نتائج سامنے آتے ہیں۔ تاہم بعض معاشروں میں ایچ آئی وی/ ایڈز سے جڑی بدنامی ایسی بات چیت کے امکانات محدود کر دیتی ہے جن کی بدولت لوگ اس بیماری کے ٹسٹوں اور علاج کی جانب آتے ہیں۔ چنانچہ بہت سی تنظیمیں لوگوں کو ایچ آئی وی/ ایڈز پر بات کے لیے راغب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ایچ آئی وی/ ایڈز کے بارے میں آگاہی دینے والی ہیڈیا براڈبینٹ کا کہنا ہے، “ایچ آئی وی اور ایڈز کے بارے میں بات نہ کرنے کے نتائج یہ ہیں کہ نوجوان اس بیماری سے محفوظ رہنے کے لیے درکار معلومات سے آگاہ نہیں ہوتے۔” ہیڈیا، ایچ آئی وی ایڈز کا شکار ہونے والے افراد میں زندگی گزارنے کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے امریکی دفتر خارجہ کے وفد کے ہمراہ افریقہ کا سفر کر چکی ہیں۔

گفت و شنید کی حوصلہ افزائی

ڈاکٹر اور منڈیلا واشنگٹن کی فیلو، کیبونی مرسی موٹسیوسی پیپ فار کے اہداف میں شامل 13 ممالک میں سے ایک ملک، بوٹسوانا میں ایچ آئی وی/ ایڈز کے بارے میں تعلیم و آگاہی پھیلاتی ہیں۔

میڈیکل کی طالبہ کے طور پر انہوں نے دیکھا کہ لوگ ایچ آئی وی/ ایڈز کے حوالے سے بات چیت کرنے یا سننے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنسی تعلقات کو عموماً ممنوعہ موضوع سمجھا جاتا ہے۔ نتیجتاً بہت سے والدین اپنے بچوں کو یہ نہیں سکھا پاتے کہ ایچ آئی وی ایڈز سے کیسے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جنسی تعلقات کے بارے میں بات ہی نہیں کرتے۔

موٹسیوسی کہتی ہیں کہ اس رحجان سے مسائل جنم لیتے ہیں کیونکہ ہمارے ارد گرد ایچ آئی وی/ ایڈز کا خطرہ موجود ہے۔ “مگر کوئی آپ کو اس بارے میں نہیں بتاتا اور کوئی آپ کو ایسی صورتحال کے لیے تیار نہیں کرتا۔”

Silhouette of person's face and hand (© AP Images)
ایچ آئی وی/ ایڈز سے منسوب بدنامی کے سبب بیشتر مریض جنوبی افریقہ کے اس یتیم بچے کی طرح بے خبر رہتے ہیں جس کی والدہ کا ایڈز کے باعث انتقال ہو گیا تھا۔ (© AP Images)

موٹسیوسی نے ‘لائف ان سنسرڈ’ کے نام سے ایک گروپ قائم کیا ہے جو میڈیا اور آرٹ کے ذریعے ایچ آئی وی/ ایڈز کے بارے میں عوامی سطح پر آگاہی کے پروگرام منعقد کرتا ہے۔ یہ گروپ اس ‘ مشکل موضوعات ‘ پر مجالس مذاکرہ کے لیے کانفرنسوں اور سماجی پروگراموں کی میزبانی کرتا ہے۔

‘لائف ان سنسرڈ’ ایل جی بی ٹی افراد کے طرز زندگی سے لے کر جسم فروشی تک بہت سے مشکل موضوعات پر مباحث کا انعقاد عمل میں لاتی ہے جن پر عام حالات میں بہت سے لوگ بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ اس سے انہیں مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لائف ان سنسرڈ کے پروگراموں میں حاضرین و سامعین کو کھل کر تبادلہ خیال اور دوسروں کے نکتہ ہائے نظر سننے کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ “گستاخی کی ضمانت ہے مگر ارادتاً ایسا نہیں کیا جائے گا۔” یہ گروپ ایچ آئی وی/ ایڈز کی بیماری کی موجودگی کے حوالے سے معلومات بھی فراہم کرتا ہے اور مریضوں کو علاج کے امکانات تجویز کرتا ہے تاکہ لوگ جب واپس جائیں تو انہیں اس کے بارے میں آگاہی ہو۔ موٹسیوسی کو امید ہے کہ ان مباحث کی بدولت لوگ اپنے سماج میں اطمینان سے ایچ آئی وی/ ایڈز کے بارے میں بات کر سکیں گے جس کے نتیجے میں اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ممکن ہو سکے گا۔

وہ کہتی ہیں،  “بات چیت جاری رکھنا ہی اگلا بہترین قدم ہے کیونکہ ہم اس وبا پر قابو پانے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ تاہم اس کے لیے ہمیں بیماری  کے بارے میں بات چیت جاری رکھنے اور لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ مرض تاحال موجود ہے۔”