امریکہ اپنے شراکت کاروں کے ساتھ مل کر یہ یقینی بنا رہا ہے کہ رسد کے عالمی سلسلے لچک دار اور پائیدار رہیں اور مصنوعات سازی یا پیداوار کے کسی ایک ذریعے پر ضرورت سے زیادہ اس کا انحصار نہ کیا جائے۔
رسد کے سلسلے ایسے دھاگے ہیں جو عالمی معیشت کو یکجا باندھے رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں رسدی سلسلے خام اشیا کو کارخانوں میں اور مصنوعات کو دکانوں اور گھروں میں پہنچاتے ہیں۔
مگر جب رسد کے بہت سے عالمی سلسے کسی ایک ملک کے ساتھ جڑ جاتے ہیں تو اِن میں آسانی سے گڑبڑ کی جا سکتی ہے یا اِن سے غلط فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
یہ مسئلہ کووڈ-19 کے دوران واضح طور پر اس وقت ابھر کر سامنے آیا جب چین میں مسائل کا نتیجہ دنیا بھر میں طبی سامان کی قلت کی صورت میں نکلا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی ایک پارٹی کی غیرجمہوری حکمرانی کی وجہ سے صورت حال مزید خراب ہوئی۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنے ہم خیال شراکت داروں کے ساتھ یہ یقینی بنانے پر کام کر رہا ہے کہ رسد کے عالمی سلسلے مضبوط اور زیادہ قابل اعتماد ہوں۔ یہ کام ایسے موقع پر کیا جا رہا ہے جب امریکہ کووڈ-19 عالمی وبا کے بعد عالمی معیشت کی بحالی میں مدد کرنے کے لیے اپنے وسیع وسائل کو متحرک کر رہا ہے۔
محکمہ خارجہ نے رسد کے سلسلوں کی اہمیت پر ایک حقائق نامے میں کہا ہے، “کووڈ-19 عالمی وبا نے قومی سلامتی کے لیے انتہائی اہم سامان کے لیے کسی واحد فراہم کنندہ پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرنے کے خطرات کو نمایاں کیا ہے۔ اپنے کاروباروں اور مجموعی خوشحالی کا تحفظ کرنے کے لیے ہمیں رسد کے عالمی سلسلوں کو متنوع بنانا چاہیے۔”
امریکہ کی “گیئر” حکمت عملی دنیا کے ممالک کی تعمیرنو میں مدد کرے گی
رسد کے سلسلوں کے تنوع کا کام محکمہ خارجہ کی “عالمی اقتصادی سرگرمیوں اور بحالی (گیئر) کی حکمت عملی” کا ایک حصہ ہے۔ دنیا کے ممالک کی عالمی وبا کے بعد تعمیر نو میں مدد کرنے کے لیے امریکی معیشت کی طاقت کو استعمال کرنے کی یہ ایک بہت بڑی کوشش ہے۔
محکمہ خارجہ کے اقتصادی اور کاروباری امور کے بیورو کی سینیئر مشیر، سارہ ویبر نے کہاکہ گیئر حکمت عملی ایسی “تیز رفتار ترقی اور اقتصادی بحالی کو آسان بنائے گی جس سے ہمارے شہریوں اور باقیماندہ دنیا کو براہ راست فائدہ پہنچے گا۔”

اس حکمت عملی میں بین الاقوامی ٹرانسپورٹیشن اور سفری نیٹ ورکوں، امریکی کاروباروں کی مدد، امریکی برآمدات کے فروغ، معاشی بحالی کے لیے مالی سہولتوں کی فراہمی، اور عالمی وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والی گڑبڑ کے نتیجے میں خوراک کی تجارت اور سلامتی کو برقرار رکھنے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
اس حکمت عملی کے تحت کووڈ-19 عالمی وبا کے خلاف عالمگیر جدوجہد میں اُس امریکی قیادت سے فائدہ اٹھایا گیا ہے جس میں انسانی امداد، صحت عامہ اور محفوظ اور موثر ویکسینیں تیار کرنے والے آپریشن وارپ سپیڈ پر اربوں ڈالر کی رقم لگائی جا چکی ہے۔
اِن پیش رفتوں سے امریکی کمپنیوں کے ساتھ تجارتی روابط مضبوط ہوئے ہیں اور بنگلہ دیش، تھائی لینڈ اور ویت نام جیسے ممالک کی ترقی پذیر معیشتوں کو فروغ ملا ہے۔
عوامی جمہوریہ چین سے کاروبار کرنے میں خطرات
گیئر حکمت عملی کا اقدام کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب امریکہ نے کاروباروں اور بین الاقوامی شراکت داروں پر چین میں اپنے رسد کے سلسلوں پر گہری نظر ڈالنے پر زور دیا ہے۔
جولائی میں امریکی حکومت نے “شنجیانگ سپلائی چین بزنس ایڈوائزری” یعنی شنجیانگ رسدی سلسلے سے متعلق ایک تجارتی ہدایت نامہ جاری کیا۔ اس کے علاوہ اُن کاروباری لیڈروں کے نام ایک کھلا خط بھی جاری کیا گیا جن کی رسدی سلسلے عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) سے جڑے ہوئے ہیں اور جو پی آر سی کی ایسی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں جو سی سی پی کی جبری مشقت، اجتماعی حراست، اور نسلی اور مذہبی اقلیتوں اور ویغوروں کے خلاف جبر کی مہم میں مدد کرتی ہیں۔
سی سی پی نے دوسرے ممالک کے ساتھ سیاسی تنازعات کے دوران خام مال روکنے سمیت، رسد کے عالمی سلسلوں میں پی آر سی کی پوزیشن کا غلط استعمال بھی کیا۔
سلامتی، لچک اور خوشحالی کو بچانے اور فروغ دینے کے لیے دنیا کے ممالک اور کاروباروں کو ایسے ممالک میں اپنے رسدی سلسلوں کو ترجیح دینا چاہیے جہاں جیسا کہ محکمہ خارجہ کے حقائق نامے میں کہا گیا ہے، “قانون کی حکمرانی کا احترام کیا جاتا ہو اور جہاں ادارے شہریوں اور صارفین کے سامنے جوابدہ ہوں؛ نہ کہ ایسے ممالک کے ساتھ جن کی (دوسروں کو) نقصان پہنچانے والی اقتصادی پالیسیوں کی اپنی ایک تاریخ ہے۔”