رقہ میں داعش کی دہشت کی حکمرانی کا خاتمہ: داعش کو نیست و نابود کرنے کی جنگ جاری

زرد رنگ کا پرچم تھامے ہوئے، ایک خاتون جنگجو۔ (© Bulent Kilic/AFP via Getty Images)
امریکی افواج کی مدد سے داعش سے رقہ پر قبضہ کرنے کے بعد، سیرین ڈیموکریٹک فورسز کی ایک کمانڈر۔ (© Bulent Kilic/AFP via Getty Images)

عراق اور شام میں اسلامی ریاست اور نام و نہاد خلافت کا عملی دارالخلافہ رقہ، داعش کی ظالمانہ گرفت سے اب آزاد کرا لیا گیا ہے۔

وزیرخارجہ ریکس ٹِلرسن نے شامی عوام اور ‘سیرین ڈیموکریٹک فورسز’ [شامی جمہوری قوتوں] کو، ‘داعش کو شکست دینے کے عالمی اتحاد’ کی مدد سے شہر کو آزاد کرانے پر مبارک باد دی ہے۔ یہ اتحاد 69 ممالک اور دو بین الاقوامی تنظیموں پر مشتمل ہے۔

سیرین ڈیموکریٹک فورسز رقہ کی حکمرانی ‘رقہ شہری کونسل’ کے حوالے کر دیں گیں۔ یہ کونسل رقہ کے نمائندوں پر مشتمل ہوگی جو رقہ شہر اور صوبے کی انتظامیہ کے مختلف شعبوں کا انتظام سنبھالے گی۔

داعش سے متعلقہ اعداد شمار کا ایک گراف۔ (State Dept./Julia Maruszewski)
(State Dept./Julia Maruszewski)

ٹِلرسن نے 21 اکتوبر کو کہا، “ہمارا بہت سا کام ابھی باقی ہے۔ تاہم رقہ کی آزادی داعش کے خلاف عالمی جنگ میں ایک انتہائی اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔” امریکہ اور اس کے اتحادی  “داعش کے چھوڑے ہوئے دھماکہ خیز موادوں کو ہٹانے اور خطرات سے دوچار آبادیوں تک انتہای اہم ضروری امداد پہنچانے کے لیے تمام ممکن کوششیں کر رہے ہیں۔”

وزیر خارجہ نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے داعش کے خلاف مہم میں تیزی لانے کے بعد، “لاکھوں لوگوں کو داعش کی جابرانہ تسلط سے آزاد کروایا گیا ہے۔ اپنے اتحادیوں کے ساتھ  موقعے پر کام کرتے ہوئے ہم لوگوں کو اپنے گھروں کو واپس آنے کے قابل بنانے کے لیے موافق حالات پیدا کر رہے ہیں۔”

رقہ شمالی شام میں واقع دریائے فرات کے کنارے آباد ایک شہر ہے۔ داعش نے 2014ء میں اس پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کے جنت چوک کو سزائے موت کی جگہ میں تبدیل کر کے شہریوں کو لوگوں کے سر قلم ہوتے ہوئے دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔

 


“رقہ کے داعش کے ہاتھوں سے نکل جانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ داعش کے خلاف ہماری جنگ ختم ہو گئی ہے۔”

وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن


 

ٹِلرسن نے کہا، “داعش” کا ظلم اور بربریت بیان نہیں کیے جا سکتے۔ ہم نے دیکھا کہ داعش نے جان بوجھ کر اور تسلسل سے عام شہریوں کو ڈھالوں کے طور پر استعمال کیا اور اپنے پیچھے اُن بچوں اور عام شہریوں کو ہلاک یا معذور کرنے کے لیے بارودی سرنگیں چھوڑیں جو محض اپنے گھروں کو واپس لوٹنے یا اپنے سکولوں میں جانے کی کوشش کر رہے تھے۔”

وزیر خارجہ نے کہا کہ داعش کو شکست دینے کا عالمی اتحاد اُس وقت تک اپنی پیش قدمی جاری رکھے گا جب تک تمام شامیوں کو “داعش کی بربریت” سے آزاد نہیں کرا لیا جاتا “اور ہم یہ یقینی نہیں بنا لیتے کہ یہ [داعش] دنیا بھر میں دہشت برآمد کرنے کے قابل نہیں رہی۔”

19 اکتوبر کو پینٹاگان کی ایک بریفنگ میں ترجمان خاتون، ڈینا وائٹ نے کہا، “داعش راہِ فرار اختیار کیے ہوئے؛ یہ اپنا اعتماد، وسائل اور اثرونفوذ ہر جگہ پر کھو رہی ہے۔”

داعش اب صرف اُس ایک چھوٹی سی پٹی پر قابض ہے جس پر اس نے شام اور عراق میں قبضہ کیا تھا۔ عراقی فوجیوں نے جولائی میں عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل سے، انتہاپسندوں کو مار بھگایا تھا۔

اب اور مستقبل قریب میں لوگ اپنے اپنے ملکوں کو نئی بستیوں کی تعمیرِنو کے لیے واپس جانا شروع کر سکتے ہیں۔

20 لاکھ سے زائد عراقی اور شامی شہری اپنے اپنے ملکوں میں اپنی زندگیوں کی تعمیرِنو کے لیے  پہلے ہی واپس آ چکے ہیں۔ یہ سب لوگ اپنی جانیں بچا کر اُس وقت بھاگے تھے جب اسلامی انتہا پسندوں نے اُن کے ممالک کو روند ڈالا تھا۔

مثال کے طور پر داعش سے لڑائی کی وجہ سے تین سال تک ناقابلِ سفر رہنے کے بعد، آج اردن کے شہر عمان سے لے کر بغداد تک کا تجارتی راستہ کھل چکا ہے۔ اس راستے سے ایک ماہ میں ایک ارب ڈالر مالیت کی اشیاء اور خدمات کی ترسیل ہوتی ہے۔