رمضان کے دوران طلبا کی رہنمائی کرنے والے مسلم چیپلین

عورتوں کا ایک گروپ جس میں کچھ میز کے گرد کھڑی اور کچھ اس کے آگے کچھ بیٹھی ہیں (Courtesy of Najiba Akbar)
ٹفٹس یونیورسٹی میں خواتین روحانی مسائل پر گفتگو کرنے کے لیے بائیں سے دوسری، چیپلین نجیبہ اکبر سے رابطہ کرتی ہیں۔ (Courtesy of Najiba Akbar)

چونکہ ماہِ رمضان قریب آرہا ہے، اس لیے امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے کیمپسوں کے مسلم چیپلین [دینی مشیر] روحانی تجدید کے اِس مہینے کے دوران مسلمان طلباء کی رہنمائی کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

چیپلین عبادات، مطالعاتی گروپوں اور کیمپسوں میں ہونے والی دینی تقریبات کے انتظامات میں رابطہ کاری کرتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں مختلف مذاہب کے چیپلین ہو سکتے ہیں۔ اعلٰی تعلیمی اداروں کے مذہبی رہنماوں کی ایسوسی ایشن کے صدر، میٹل سالٹیل کے مطابق ان میں مسلم چیپلینوں کی تعداد زیادہ ہے۔

شمالی کیرولائنا کی ڈیوک یونیورسٹی کے جوشوا سلام کا شمار بھی مسلم چیپلینوں میں ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈیوک یونیورسٹی  میں طلباء کا تنوع، بین الاقوامی اور امریکی دونوں، ان کو دنیا بھر کے لوگوں اور روایات سے منسلک ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔  وہ کہتے ہیں کہ  یہ کام “میرے دل کو دوسروں کی راہوں سے جوڑتا ہے۔”

جوشوا سلام کو یاد ہے کہ 2021 میں کورونا کی وبا کی وجہ سے رمضان کے دوران کیمپس میں بہت کم طلبا ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب 2022 میں وہ مسلمان طلباء اور عملے کو ایک جگہ “شخصی طور پر کھانا کھاتے اور عبادت کرتے ہوئے” دیکھنے کے منتظر ہیں۔ وہ لچک سے کام لیں گے۔ وہ کہتے ہیں، “ہم دیکھیں گے کہ حالات کا کیا رخ ہے۔ یہ ایک قسم کا تجربہ ہے جس کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ  کتنے مسلمان شرکت کے لیے باہر نکلتے ہیں۔”

 عمارت کے سامنے کھڑا ایک آدمی لوگوں کے سامنے تقریر کر رہا ہے (© Jared Lazarus/Duke University)
چیپلن جوشوا ڈیوک یونیورسٹی کے گرجا گھر کے باہر تقریر کر رہے ہیں۔ (© Jared Lazarus/Duke University)

میساچوسٹس کی ٹفٹس یونیورسٹی کی نجیبہ اکبر نے چند ہی ماہ قبل اپنی ملازمت کا آغاز کیا ہے اور ابھی سے ہی اُن کو طالب علموں کے ساتھ ان کے عقیدے کے سفر میں چلنے کے اچھے نتائج محسوس ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ عام دنوں کی طرح رمضان کے دوران وہ طلباء کو “حیرت زدہ ہونے، سوال پوچھنے، اور یہ تصور کرنے کے لیے ایک محفوظ جگہ فراہم کرتی ہیں کہ اس دنیا میں [وہ] کون ہیں اور کیا بننا چاہتے ہیں۔”

وہ کہتی ہیں، “کچھ طالب علم اپنے عقیدے کے ساتھ تعلق قائم کرنے یا دوبارہ تعلق قائم کرنے اور دین کے بارے میں مزید علم  حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کے طریقوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔” وہ اسلام کی جستجو میں وقت نکالتے ہیں کیونکہ ماہ رمضان انہیں یہی دعوت دیتا ہے۔ “وہ سیکھنے اور سوالات پوچھنے کے لیے کسی کے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہیں۔”

دونوں چیپلین اس بات کا خصوصی ذکر کرتے ہیں کہ طلبا پورے تعلیمی سال کے دوران ان سے صلاح مشورے کرتے رہتے ہیں۔ اگر انہیں کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو، بھلے یہ تعلیمی، سماجی یا خاندانی مسئلہ ہو، وہ کسی ایسے شخص کی تلاش میں ہوتے ہیں جس سے وہ بات کر سکیں۔

جوشوا سلام نے کہا، “طالب علموں کو عام طور پر تعلقات نبھانے میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اوقات یہ [مدد] اُن کے خدا کے ساتھ تعلق کے بارے میں ہوتی ہے جبکہ بعض اوقات اس مدد کا تعلق اُن کے اپنے والدین، اپنے پروفیسروں، اپنے دوستوں، ڈیوک [یونیورسٹی]، ان کی ڈگری، [یا] اشیا وغیرہ سے ہوتا ہے۔ ایک چیپلین کی حیثیت سے میں اِن کے جواب غوروخوض سے، توجہ سے سننے یا روحانی بنیاد کے ذریعے تلاش کرنے میں ان کی مدد کرتا ہوں۔”

 نوجوان لوگ ہاتھوں میں کھانے کی پلیٹیں پکڑے، بیٹھے ہوئے مسکرا رہے ہیں۔ (© Duke University)
ڈیوک یونیورسٹی کے طلبا کورونا کی وبا سے پہلے ‘ سنٹر فار مسلم لائف’ میں مل بیٹھتے تھے۔ (© Duke University)

ماہ رمضان کے دوران نجیبہ اکبر ہفتے میں دو افطاریوں کے علاوہ ٹفٹس یونیورسٹی میں تراویح (رات) کی نماز کے انتظامات بھی کرتیں ہیں۔

رمضان کے فجر سے شام تک کے روزوں کے اختتام پر منائی جانے والی عیدالفطر  جیسے ہی قریب آتی ہے، دونوں یونیورسٹیوں کے مسلمان طلبا کا ذاتی طور پر عید منانے کا انتظار بھی شروع ہو جاتا ہے۔ اس سال نجیبہ اکبر نے طلباء کو عید کی نماز کے لیے بوسٹن کی مسجد (بوسٹن ثقافتی مرکز کی اسلامی سوسائٹی) میں لے جانے اور پھر یونیورسٹی میں دوپہر کے کھانے کا اہتمام کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ عید کے ایک بڑے اجتماع کی منصوبہ بندی کے لیے علاقے کی دوسری یونیورسٹیوں سے بھی رابطے کریں۔

ڈیوک یونیورسٹی کے جوشوا سلام کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ “اس [رمضان] کو کھیل، کھانے اور دیگر چیزیں پرلطف بنائیں گیں۔”

اگر آپ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو EducationUSA  پر جا کر مزید معلومات حاصل کریں۔