ہر ماہ امریکہ کا محکمہ محنت کا اعدادوشمار کا بیورو گزرے ہوئے مہینے کے دوران امریکہ میں برسرِ روزگار اور بے روزگار افراد کی تعداد کا اعلان کرتا ہے جس میں اِن افراد کی عمریں، نسل اور نسلی پسہائے منظر، تعلیم، پیشے اور اسی طرح کی دیگر تفصیلات شامل ہوتی ہیں۔

محکمہ محنت کے شماریات کا بیورو اس طرح کے اعدادوشمار 1940 سے جاری کرتا چلا آ رہا ہے۔ اِن اعدادوشمار کے طریقہائے کار میں عوام کو شریک کیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کی محنت کی بین الاقوامی تنظیم (آئی ایل او)، جس کے معیارات اقوام متحدہ مقرر کرتی ہے، اور 36 رکنی اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی)، دونوں تنظیمیں بے روزگاری کی شرح کو باقاعدگی سے، شفاف اور غیر سیاسی طریقے سے شائع کرنے کی اہمیت کا حوالہ دیتی ہیں۔امریکہ دونوں تنظیموں کا رکن ہے۔

آئی ایل او کے ماہر اقتصادیات، سٹیون کیسوس کہتے ہیں کہ شواہد کی بنیاد پر “ڈیزائن کرنے، عملی جامہ پہنانے اور جانچ پڑتال کرنے کے لیے” محنت سے متعلق بروقت اعدادوشمار پالیسی سازوں کی مدد کرتے ہیں۔

آئی ایل او دنیا بھر کے قومی شماریاتی دفاتر سے افرادی قوت کے سروے کے اعدادوشمار اکٹھے کرتی ہے۔ کیپسوس کہتے ہیں، “معتبر سروے نہ صرف پالیسی سازوں کے لیے، بلکہ کمپنیوں اور روزگار تلاش کرنے والوں کے لیے بھی لازمی [ہوتے ہیں] تاکہ وہ حقائق کی روشنی میں فیصلے کر سکیں- اِن [فیصلوں] کا تعلق ملازمت فراہم کرنے، زرتلافی دینے کے علاوہ، [اس سوال سے بھی ہوتا ہے کہ] اب اور مستقبل میں کس قسم کی مہارتوں کی طلب ہوگی۔”

او ای سی ڈی کے قائم مقام ماہرشماریات، پال شرائر کے مطابق او ای سی ڈی کے ممبر ممالک اس بات پر متفق ہوتے ہیں کہ کن چیزوں سے متعلق اعدادوشمار اکٹھے کیے جائیں۔ وہ کہتے ہیں، “[اعدادوشمار جمع کرنے کے] طریقوں سے متعلق مشترکہ علم، ثبوت اور شفافیت کے بارے میں حکومتی پالیسیاں بنانے اور معاشرے کو آگاہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔”

 “اعدادوشمار کی غیرموجودگی میں، آپ جو کچھ بھی کہیں اُس کی حیثیت ایک رائے کی سی ہوتی ہے۔”

امریکی انجنیئر ڈبلیو ایڈورڈز ڈیمنگ 

محکمہ خارجہ کی اقتصادی ماہرین کی سربراہ، شیرن براؤن-ہروشکا عوامی جمہوریہ چین کا ایک ایسے ملک کی حیثیت سے حوالہ دیتی ہیں جس کے بے روزگاروں کی تعداد سمیت اقتصادی اعدادوشمار ناقابل اعتبار ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا، “پی آر سی نے اپنی مجموعی قومی پیداوار، بے روزگاری، اور اقتصادیات کے اعدادوشمار میں ہیر پھیر کو ایک قسم کی سائنس بنا دیا ہے۔ اُن کے اعدادوشمار پر کنٹرول اور منفرد قسم کے کمیونسٹ (یعنی مرکزی منصوبہ بندی) کے طریقے، کارکردگی جانچنے کی کوشش کرنے والے اقتصادی ماہرین میں بہت زیادہ نفرت پیدا کرتے ہیں۔”

براؤن-ہروشکا نے بتایا، ” بالخصوص پی آر سی کی حکومت مجموعی قومی پیداوار اور ملازمتوں کے بارے میں ترقی کے ایسے اہداف مقرر کرتی ہے جنہیں صوبائی حکومتوں کو ہر حال میں حاصل کرنا ہوتا ہے۔” یہ حکام “دیہی علاقوں اور صوبوں کے نقل مکانی کرنے والے مزدوروں جیسے آبادی کے اہم حصو کی کم گنتی کرتے ہوئے، ناقص سرمایہ کاریاں کرتے ہیں۔”

چینی نظام بعض چینیوں کو بے روزگاری کی صورت میں ملنے والی مراعات نہیں دیتا اور ملک بھر میں بے روزگاری کی شرحوں کا تقابلی جائزہ لینے کے لیے اقتصادی ماہرین کی کوششوں میں روڑے اٹکاتا ہے۔

معیشت کی اہم جھلکیاں

امریکہ پالیسیاں بنانے کے لیے ماہانہ رپورٹوں کو استعمال کرتا ہے۔ اِن معلومات سے سرکاری عہدیداروں کو نہ صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ کتنے لوگ بے روزگار ہیں بلکہ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اُن کے روزگار کیسے چھوٹے، کب چھوٹے، اور بے روزگاروں کی صنفیں اور عمریں کیا ہیں۔ اعدادوشمار برسر روزگار افراد کی تنخواہوں کی کم از کم اور زیادہ سے زیادہ حدیں اور معیشت کے مشکلات کے شکار شعبوں کے ساتھ ساتھ نئے لوگوں کو بھرتی کرنے والے شعبوں کے بارے میں بھی بتاتے ہیں۔

ملک کی افرادی قوت کی مجموعی تعداد کے حساب سے قومی بے روزگاری کی فیصد شرح بیان کی جاتی ہے۔ امریکی شہریوں کے نزدیک بے روزگاری کی شرح لیبر مارکیٹ کا ممکنہ طور پر مشہور ترین اشاریہ ہے۔