روسی فیڈریشن دوسرے مممالک میں مظاہروں کی قیادت کرنے کے لیے فوجیوں کو بھیس بدل کر کیوں بیجھتی ہے؟ یا اپنی فوجوں کو روس کے شراکت کاروں پر حملہ کرنے کا حکم کیوں دیتی ہے؟
روس ایک طویل عرصے سے اپنے آپ کو یا اپنے شراکت داروں کو متاثرین کے طور پر پیش کرنے، ذمہ داری سے بچنے، الجھنیں پیدا کرنے اور جنگ کرنے کے بہانے تراشنے کے لیے اس طرح کی “فالس فلیگ” کاروائیاں [یعنی ایسی کاروائیاں جن کی اصل حقیقت اُن کی ظاہری حقیقت سے مختلف ہوتی ہے] کرتا چلا آ رہا ہے۔
2008 میں روس نے جارجیا میں بدامنی پھیلانے کے لیے گمنام فوجی بھیجے۔ جب جارجیا کی حکومت نے اس کا جواب دیا تو روس نے جارجیا پر حملہ کر دیا۔ 2014 میں روسی سپیشل فوجی دستے اپنے آپ کو خود کا دفاع کرنے والے مقامی دستے ظاہر کرتے ہوئے یوکرین میں داخل ہوئے تو انہوں نے سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا جس کا نتیجہ روس کے کریمیا پر قبضے کی صورت میں نکلا۔

اب امریکی حکام متنبہ کر رہے ہیں کہ کریملن اپنی وارداتوں کی پرانی کتاب کی طرف لوٹ رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری، جین ساکی نے 14 جنوری کو کہا، “ہمارے پاس ایسی اطلاعات موجود ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ روس نے مشرقی یوکرین میں فالس فلیگ کاروائیاں کرنے کے لیے پہلے سے ہی کارندوں کے ایک گروہ کو تعینات کر رکھا ہے۔ اِن کارندوں کو روس کے اپنے پراکسی دستوں کے خلاف تخریبی کارروائیاں کرنے کے لیے شہری جنگ اور دھماکہ خیز مواد کے استعمال کی تربیت دی گئی ہے۔”
یہ خدشات کہ روس یوکرین میں فالس فلیگ کاروائیاں کر سکتا ہے اس وقت سامنے آئے جب روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین کی سرحد پر ایک لاکھ سے زیادہ فوج جمع کر دی اور اِن غلط بیانیوں کو فروغ دیا کہ یوکرین تنازعے کو ہوا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور شراکت داروں نے اس کے ردعمل میں پرامن حل کے مطالبات کیے ہیں۔ وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 18 اور 21 جنوری کے دوران کیف، برلن اور جنیوا کا دورہ کیا تاکہ یوکرین کے لیے روس کے خطرے سے نمٹنے کے لیے متحدہ سوچ کو آگے بڑھایا جا سکے۔
روس کی فالس فلیگ کی کاروائیاوں کی تاریخ دہائیوں پرانی ہے اور اس کی کئی ایک شکلیں ہیں۔ 1939 میں سوویت یونین نے فن لینڈ کے قریب سوویت گاؤں مینیلا کے باہر اپنی ہی فوجوں پر گولہ باری کی۔ اس کے بعد اس نے حملے کا الزام فن لینڈ پر لگایا اور دونوں ممالک کے درمیان عدم جارحیت کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے پڑوسی [فن لینڈ] پر حملہ کر دیا۔
ہیلسنکی، فن لینڈ پر 28 دسمبر 1939 کو سوویت بمباری کے بعد ہیلسنکی کی ایک گلی کا منظر۔ (© Fox Photos/Getty Images)
ابھی حال ہی میں روسی ریاست کے ہیکروں نے ذمہ داری سے بچنے کے لیے ایران کی حکومت یا عراق اور شام کی اسلامی ریاست (داعش) کے کارندوں کا روپ دھارا۔ 2017 میں روس کی فوج نے یوکرینی کاروباروں کے خلاف رینسم ویئر حملہ کیا۔ وائرڈ میگزین کے مطابق ریاستی کارندوں نے اس حملے کو چھپانے کے لیے اسے منافع خوروں کی طرف سے کیا جانے والا حملہ قرار دیا۔ مگر آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، برطانیہ اور امریکہ کی جانب سے کی جانے والی مشترکہ تحقیقات میں اس حملے کا ذمہ دار کریملن کو پایا گیا۔
Investigation is still ongoing but the Security Service of Ukraine has obtained preliminary indicators suggesting that hacker groups associated with the Russian secret services may stand behind today’s massive cyberattack on government websites https://t.co/VaSfPL1RSc @ServiceSsu
— Oleg Nikolenko (@OlegNikolenko_) January 14, 2022
نیٹو نے سائبر سپیس میں روس کی حکمت عملی (پی ڈی ایف، ایم بی 4.1) کے بارے میں جون 2021 کی ایک رپورٹ میں کہا کہ روس کی فالس فلیگ کاروائیاں ہیکروں کی نشاندہی کرنے اور ان کا احتساب کرنے کی کوششوں کو پیچیدہ بناتی ہیں۔
یوکرینی حکام نے 14 جنوری کو اعلان کیا کہ ان کی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ سمیت ہیکروں نے سرکاری ویب سائٹوں کو نشانہ بنایا اور ممکنہ طور پر اس کا ذمہ دار روس ہے۔
یورپ کے اپنے دورے کے دوران بلنکن نے جنیوا میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے ملاقات کی تاکہ روس پر زور دیا جا سکے کہ وہ کشیدگی میں کمی لائے اور یوکرین کی سرحد سے فوجیں ہٹائے۔
بلنکن نے 18 جنوری کو لاوروف کو ایک کال کے دوران بتایا کہ کشیدگی کم کرنے کے لیے سفارتی راہ اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے ساتھ امریکہ کا عزم غیرمتزلزل ہے۔