
آزاد میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ یوکرین کے خلاف اپنی وحشیانہ جنگ میں روس لازمی فوجی سروس کے تحت بھرتی ہونے والے فوجیوں پر انحصار کررہا ہے۔ یہ فوجی اکثر اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں بے خبر ہوتے ہیں اور اِن کی جنگی تربیت ناکافی ہوتی ہے۔
ولاڈیمیر پوٹن نے کئی موقعوں پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین میں روس کے “خصوصی فوجی آپریشن” میں صرف پیشہ ور فوجی اور افسران شامل ہیں اور یہ کہ لازمی فوجی سروس کے تحت بھرتی کیے گئے فوجیوں کو استعمال نہیں کیا جائے گا۔ تاہم روس کی وزارت دفاع نے 9 مارچ کو تسلیم کیا کہ اس نے یوکرین میں لازمی فوجی سروس کے تحت بھرتی کیے گئے فوجیوں کو استعمال کیا اور اِن میں سے کچھ کو یوکرین کی افواج نے پکڑا ہے۔
روس میں 18 سے 27 سال کی عمر کے تمام مردوں کے لیے فوج میں خدمات انجام دینا ضروری ہوتا ہے، لیکن بہت سے لوگ بھرتی سے بچنے کے لیے التوا حاصل کر لیتے ہیں۔
لازمی فوجی سروس کے تحت بھرتی کیے جانے والے فوجیوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل، الیکسی تابالوو نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، “ایسے میں کس قسم کا بھروسہ کیا جا سکتا ہے جب پوٹن ایک دن کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لازمی فوجی سروس کے تحت بھرتی کیے جانے والے فوجی وہاں نہیں بھیجے جائیں گے … اور پھر وزارت دفاع تسلیم کرتی ہے کہ وہ وہاں ہیں؟”
روس کی فوج میں 10 لاکھ فوجی شامل ہیں جن میں سے چار لاکھ کنٹریکٹ فوجی ہیں۔ 31 مارچ کو مزید 134,000 افراد کو فوج میں لازمی سروس کے تحت بھرتی کیا گیا۔
فوجیوں اور اُن کے خاندانوں کو اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے
روس میں فوجیوں کے حقوق کے حامی کے گروپ “مادرز کمیٹی” کی سربراہ، سویتلانہ گولب کے مطابق بھرتی ہونے والے فوجیوں کے کچھ رشتہ داروں نے کہا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ یوکرین میں لڑنے والے فوجی کہاں ہیں۔
انہوں نے دی گارڈین کو بتایا، “خاندانوں کو مکمل طور پر اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے۔ مجھے علم ہے کہ کہ حالات واقعی خراب ہیں کیونکہ اِن [فوجیوں] کے گھر والے مجھے بتاتے ہیں کہ وہ اب فوجیوں سے رابطہ نہیں کر سکتے۔”
اے پی کے مطابق ایک روسی پارلیمنٹیرین نے کہا کہ لازمی فوجی سروس کے تحت بھرتی ہونے والے 100 فوجیوں کے ایک گروپ کو فوجی خدمات کے معاہدوں پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا اور پھر انہیں لڑائی کے لیے یوکرین بھیج دیا گیا۔ ان میں سے صرف چار زندہ بچے ہیں۔
لازمی فوجی سروس کے تحت بھرتی ہونے والے فوجیوں نے بتایا کہ کمانڈروں نے انہیں یہ بتایا کہ انہیں فوج کی تربیتی مشقوں کے لیے بھیجا جا رہا ہے مگر انہیں وہاں جا کر پتہ چلاکہ وہ یوکرین میں جنگی علاقوں میں جا رہے ہیں۔

روس کے زیر کنٹرول یوکرین میں جبری بھرتی
کریملن یوکرین کے ان حصوں سے لازمی فوجی سروس کے تحت فوجیوں کو زبردستی بھرتی کر رہا ہے جن علاقوں پر روس کے یوکرین پر 2014 کے حملے کے بعد اس کا کنٹرول ہے یا اِن پر اس کا قبضہ ہے۔
روئٹرز کے مطابق روسی حکومت کے زیرِکنٹرول مشرقی یوکرین کے ڈونباس کے علاقوں سے ماریوپول میں لڑنے کے لیے بھیجے گئے ایک اندازے کے مطابق 135 فوجیوں نے احتجاج کے طور پراپنے ہتھیار پھینک دیے۔ ان کے کمانڈروں نے سزا کے طور پر فوجیوں کو تہہ خانے میں بند کر دیا اور انہیں دھمکیاں دیں۔
ڈونباس میں روسی فوج نے پیشہ ور فوجیوں کو دی جانے والی رائفلوں کی نسبت پرانی رائفلیں دے کر اور بغیر تربیت کے ایک طالب علم کو ماریوپول بھیج دیا۔ اس کی یونٹ کو شدید لڑائی لڑنا پڑی۔ یونٹ کے ارکان نے مردہ مینڈکوں والا پانی پیا۔
اس نے بتایا کہ بہت زیادہ ہلاکتیں ہوئیں ہیں۔ “مجھے جنگ سے نفرت ہے۔ میں جنگ نہیں چاہتا بلکہ اس پر لعنت بھیجتا ہوں۔ وہ مجھے مقتل گاہ میں کیوں بھیج رہے ہیں؟”
جب سے روس نے اس علاقے پر قبضہ کیا ہے کریمیا کے باشندے گزشتہ آٹھ سالوں سے روسی فوج میں خدمات انجام دینے پر مجبور ہیں۔ یہاں کے رہائشیوں کو دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو اُن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ یوکرین کے خلاف روسی فوج کی طرف سے لڑنے والے کریمیا کے لوگوں کی تب پتہ چلا جب انہیں جنگی قیدی بنایا گیا۔
دیگر مقامات میں رنگروٹوں کی تلاش

کریملن سابق سوویت ممالک اور شام جیسے اتحادیوں کی طرف بھی نئی بھرتیوں کے لیے ایک ایسی جنگ لڑنے کے لیے دیکھ رہا ہے جو پوٹن کی توقع سے کہیں زیادہ دیر تک جاری رہے گی۔
روسی حکومت فوجیوں کے لیے اس قدر بے چین ہو چکی ہے کہ وہ تارکین وطن کو تیزی سے شہریت کی پیشکش کر رہی ہے اوراس پیشکش کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ روس میں رہنے والے کرغیز باشندوں کو یوکرین کے خلاف کریملن کی جنگ لڑنے کے لیے پیسے دیئے جا رہے ہیں۔
کرغزستان کے رہنے والے سرداربیک ممتلائیف نے حال ہی میں روسی شہریت حاصل کی ہے۔ اس کے بعد اسے فوجی ڈیوٹی کے لیے رپورٹ کرنے کو کہا گیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق روس کی شہریت حاصل کرنے والے تیس ہزار کرغیز مرد اب لازمی فوجی سروس کے قانون کے تحت بھرتی کے اہل ہو گئے ہیں۔
ممتلائیف نے Cabar.asia کو بتایا، “مجھ سے کہا گیا کہ مجھے فوجی دفتر میں حاضر ہونا چاہیے ورنہ میری روسی شہریت منسوخ ہو سکتی ہے۔”
جو مرد روس میں لازمی فوجی سروس میں بھرتی ہونے کے اہل ہیں ان کو فوج میں بہرصورت سروس کرنا ہوتی ہے بھلے وہ اپنے آبائی ممالک میں یہ خدمات انجام دے چکے ہوں۔
پوٹن اپنے اتحادی شامی صدر، بشار الاسد پر بھی تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ شام یوکرین میں روسی فوجیوں کے ہمراہ لڑنے کے لیے اپنی فوج سے فوجیوں کو بھرتی کر رہا ہے۔ بھرتی ہونے والوں سے ہر ماہ تین ہزار ڈالر تنخواہ کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ یہ رقم شام میں فوجیوں کی عام تنخواہوں سے بہت زیادہ ہے۔