مختلف ممالک کے بھوک کے شکار لوگوں کے لیے بھیجا جانے والا لاکھوں ٹن اناج یوکرینی بندرگاہوں میں رکا پڑا ہے کیونکہ روس بحیرہ اسود کے اناج کے معاہدے سے نکل گیا ہے۔
اس معاہدے کے تحت لائی جانے والی ہر کھیپ نے دنیا کے غریب ترین ممالک کی مشکلات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی منڈیوں میں [اناج] لانے سے سب کے لیے خوراک کی قیمتیں کم ہو جاتی ہیں،”
روس نے 17 جولائی کو اعلان کیا کہ وہ اب اس معاہدے میں شرکت نہیں کرے گا۔ یہ معاہدہ جولائی 2022 میں اقوام متحدہ اور ترکیہ کی ثالثی میں طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت یوکرین کی 32 ملین میٹرک ٹن سے زائد زرعی برآمدات بحفاظت بحیرہ اسود کے راستے دنیا کے ممالک کو بھیجی گئیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق مارچ 2022 کے بعد سے اس معاہدے کے تحت بھیجے جانے والے اناج سے خوراک کی قیمتوں میں 23 فیصد سے زائد کمی لانے میں مدد ملی۔
سنگین نتائج
پوری دنیا میں سرکاری حکام نے روزمرہ کی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات بیان کرتے ہوئے روس سے اس معاہدے کا پاس کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتیرس نے 17 جولائی کو کہا کہ “کروڑوں لوگوں کو بھوک کا سامنا ہے اور صارفین عالمی مہنگائی سے دوچار ہوگئے ہیں۔ وہ [سب] اس کی قیمت چکائیں گے۔”
چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان، ماؤ نِنگ نے 17 جولائی کو کہا کہ چین امید کرتا ہے کہ بحیرہ اسود کا اناج کا معاہدہ “بدستور متوازن رہے گا اور اس پر بھرپور طریقے سے عمل کیا جائے گا۔”
چین کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جو اس معاہدے کے تحت یوکرین کی زرعی اجناس وصول کرتے ہیں۔ یوکرین سے برآمد کیا جانے والا اناج پوری دنیا میں لوگوں تک پہنچا۔ اس میں یمن، ایتھوپیا، صومالیہ اور افغانستان جیسے دنیا کے بعض سب سے زیادہ غذائی عدم تحفظ کے شکار ممالک میں رہنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔ یوکرین کا اناج وصول کرنے والے دیگر ممالک میں مصر، انڈونیشیا، کینیا اور تیونس شامل ہیں۔

کینیا کے خارجہ امور کے پرنسپل سیکرٹری، کوریر سنگوائے نے کہا کہ “روس کا بحیرہ اسود اناج کے معاہدے سے نکلنا خوراک کی عالمی غذائی قیمتوں کی پیٹھ میں گھونپا جانے والا ایک چھرا ہے اور یہ [اقدام] پہلے ہی سے خشک سالی کے شکار قرن افریقہ کے ممالک کو غیرمتناسب طور پر متاثر کرے گا۔
آسٹریلیا کی وزیر خارجہ پینی وانگ نے اناج کی بحرہند و بحرالکاہل اور افریقہ میں ہمارے شراکت داروں سمیت محفوظ ترسیل کو یقینی بنانے کے حوالے سے اس معاہدے کو “انتہائی اہم” قرار دیا۔
یورپی یونین کے سفارتی کاری کے سربراہ، جوسیپ بوریل نے روس کے اس اقدام کو “غیرمنصفانہ” قرار دیا۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر لنڈا تھامس-گرینفیلڈ نے کہا کہ “روس نے دنیا کے کمزور ترین [لوگوں پر] ایک اور وار کیا ہے۔”
دنیا کے شدید ترین بھوک کا سامنا کرنے والے لوگوں کا نقصان
بحیرہ اسود کے اناج کے معاہدے کے تحت اقوام متحدہ کے خوراک کے عالمی پروگرام کو بھی یوکرینی اناج فراہم کیا جاتا تھا جو کہ بھوک اور غذائی عدم سلامتی کا مقابلہ کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی انسانی تنظیم ہے۔
خوراک کے عالمی پروگرام کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، سنڈی مکین نے معاہدے کو بھوک کے غیرمعمولی بحران کے دوران لاکھوں لوگوں کے لیے “زندگی اور موت کا سوال” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ “دنیا بھر کے زندہ رہنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے والے لوگ ایک ایسی جنگ کا نشانہ بنائے جانے کے مستحق نہیں ہیں جس سے اُن کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔”
امریکہ خوراک کے عالمی پروگرام کو سب سے زیادہ عطیات دینے والا ملک ہے۔

روس سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کے مطالبات
کریملن نے کہا کہ وہ اس معاہدے سے اس لیے دستبردار ہوا ہے کیونکہ روس کے اناج اور کھاد برآمد کرنے کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں۔
مگر تجزیہ کار اور برآمدی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ روس اگر زیادہ نہیں تو اتنی مقدار میں ہی اناج اور کھاد برآمد کر رہا ہے جتنی وہ پہلے کیا کرتا تھا۔
دنیا کے لیڈروں نے روس سے اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بلنکن نے کہا کہ “ہم روس کی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے۔”