روس کی یوکرین کے خلاف جنگ ایک ‘تزویراتی ناکامی’ ہے: بلنکن

نیٹو کے تازہ ترین رکن ملک، فن لینڈ کے دارالحکومت میں خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے اُس تزویراتی ناکامی کو صراحت سے بیان کیا جس سے روس کو یوکرین پر اپنے مکمل حملے کی وجہ سے دوچار ہونا پڑا ہے۔

انہوں نے “پوٹیمکن امن” کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے منصفانہ اور دیرپا امن کے لیے واضح اصول بھی بیان کیے۔ “پوٹیمکن” کی اصطلاح سے مراد اٹھارویں صدی کا روسی حکومت کا گریگوری پوٹیمکن نامی ایک وزیر ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس نے ملکہ کیتھرین دوئم کے دورے سے پہلے گاؤں کی عمارتوں کے سامنے والے حصوں پر شوخ رنگ کروا دیئے تاکہ خوشحالی کا جھوٹا تاثر پیدا کیا جاسکا۔

وزیر خارجہ نے 2 جون کو ہیلسنکی میں کہا کہ “آج فوجی، اقتصادی اور جغرافیائی لحاظ سے روس کی حالت یوکرین پر مکمل حملے سے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب ہے۔”

ان کا یہ خطاب ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب یوکرین کے خلاف کریملن کی مکمل جنگ کو 15 ماہ گزر چکے ہیں اور اس جنگ نے یوکرین کے لوگوں کو خوفناک مصائب سے دوچار کر دیا ہے۔

فوجی لحاظ سے روس کی پہلے سے زیادہ خراب صورت حال

وزیر خارجہ نے زور دے کر یہ بات کہی کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کئی برسوں سے نیٹو کو کمزور کرنے کی کوششیں کرتے چلے آ رہے ہیں۔  وزیر خارجہ نے کہا کہ اس کے باوجود فروری 2022 کے حملے نے اِس بندھن کو مزید مضبوط بنا دیا ہے۔ فن لینڈ نیٹو کا اکتیسواں رکن بن گیا ہے جب کہ توقع ہے کہ سویڈن اس کا بتیسواں رکن بن جائے گا۔

کریملن اکثر دعویٰ کرتا رہتا تھا کہ اس کے پاس دنیا کی دوسری سب سے زیادہ مضبوط فوج ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ “آج بہت سے لوگ [دنیا کی بجائے] یوکرین میں روس کی فوج کو دوسری طاقتور ترین فوج کے طور پر دیکھتے ہیں۔” روس کا سازوسامان، ٹیکنالوجی، قیادت، فوج، حکمت عملی اور حوصلے ناکامی کی ایک ایسی داستان بن چکے ہیں جو “تجزیے کا تقاضا کرتی ہے۔”

ایک اندازے کے مطابق گزشتہ چھ ماہ میں روس کو 100,000 ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اینٹونی بلنکن سٹیج پر کھڑے تقریر کر رہے ہیں اور اُن کے سامنے لوگ کرسیوں پر بیٹھے ہیں (State Dept./Chuck Kennedy)
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن 2 جون کو فن لینڈ کے شہر ہیلسنکی کے سٹی ہال میں تقریر کر رہے ہیں۔ (State Dept./Chuck Kennedy)

اقتصادی لحاظ سے روس کے پہلے سے زیادہ خراب حالات

وزیر خارجہ نے کہا کہ صدر پوتن روس کو ایک عالمی، اقتصادی طاقت بنانا چاہتے تھے۔ اس کے برعکس آج روس کی معیشت اپنے ماضی کا سایہ بن چکی ہے اور اگر پوتن نے ہتھیاروں اور جنگ کی بجائے پیسہ ٹکنالوجی اور اختراعات پر لگایا ہوتا تو اس کے نتیجے میں روس جو کچھ ہوتا آج وہ اُس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ فروری 2022 کے مکمل حملے کے بعد:-

  • روس کے زرمبادلہ کے ذخائر نصف سے زیادہ کم ہو چکے ہیں۔
  • تیل اور گیس سے ہونے والی آمدنی تقریباً دو تہائی کم ہو چکی ہے۔
  • حملے کے آغاز کے بعد 1,700 سے زیادہ غیر ملکی کمپنیوں نے روس میں اپنی [کاروباری] سرگرمیوں کو کم، معطل یا ختم کر دیا ہے۔
  • دس لاکھ لوگ روس چھوڑ گئے ہیں جن میں ملک کے آئی ٹی کے ہہت سے سرکردہ ماہرین، کاروباری افراد، انجنیئر، ڈاکٹر، پروفیسر، صحافی، اور سائنسدان شامل ہیں۔
  • لاتعداد فنکار، ادیب، فلم ساز، موسیقار بھی ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں جن کو ایک ایسے ملک میں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا جہاں وہ آزادانہ طور پر اپنی بات نہیں کر سکتے۔

جغرافیائی لحاظ سے روس کے پہلے سے زیادہ خراب حالات

سکرین پر دکھائی دینے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی رائے شماری کے نتائج (© Bebeto Matthews/AP)
یوکرین کی علاقائی سالمیت برقرار رکھنے اور روس کے فروری 2022 کے حملے کے بعد ہونے والی جنگ کو فوری طور پر بند کرنے کے بارے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد پر رائے شماری کے سکرین پر دکھائے گئے نتائج۔ (© Bebeto Matthews/AP)

وزیر خارجہ نے کہا کہ روس آج دنیا کے منظر نامے پر زیادہ تنہا ہو گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے کم از کم دو تہائی رکن ممالک یعنی 140 ممالک نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مندرجہ ذیل اقدامات کے حق میں بار بار ووٹ دیئے ہیں:-

  • یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی توثیق کی جائے۔
  • یوکرین کے علاقے کا غیر قانونی الحاق کرنے کی پوتن کی کوششوں کو مسترد کیا جائے، روس کی جارحیت اور مظالم کی مذمت کی جائے۔
  • اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں کے مطابق امن کے قيام کا مطالبہ کیا جائے۔

خوراک اور ایندھن کو ہتھیاروں کے طور پر استعمال کرنے کی بدولت صدر پوتن نے تمام براعظموں میں روسی اثر و رسوخ کو کم کر دیا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پوتن کا بنیادی مقصد بلکہ ان کے ذہن میں سمایا خیال یہ ہے کہ یوکرین کے بنیادی تصور یعنی اس کی شناخت، اس کی ثقافت، اس کی خودمختاری اور اس کی سرزمین کو ختم کر دیا جائے۔ اس کے برعکس یہاں بھی پوتن کی کاروائیوں کا الٹا نتیجہ نکلا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ “کسی نے یوکرین کی شناخت کو مضبوط بنانے کے لیے اتنا زیادہ کام نہیں کیا جتنا کام اُس شخص نے کیا ہے جو اسے مٹانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔”

‘منصفانہ اور دیرپا امن’

یوکرینی پرچم لپیٹے اندھیرے میں کھڑی ایک خاتون (© Kin Cheung/AP)
دنیا یوکرین کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ اس کی ایک مثال فروری میں لندن میں یوکرینی شہریوں اور امریکی سفارت خانوں کی جانب سے یوکرین پر روس کے مکمل حملے کا ایک سال پورا ہونے سے قبل منعقد کیا جانے والا یہ دعائیہ اجتماع تھا۔ (© Kin Cheung/AP)

وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ کسی بھی ایسے اقدام کا خیرمقدم کرے گا جو صدر پوتن کو “بامعنی سفارت کاری” کے لیے مذاکرات کی میز پر لاسکے اور منصفانہ اور دیرپا امن تک پہنچا سکے۔

امریکہ منصفانہ اور دیرپا امن کے بنیادی عناصر پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے یوکرین اور دنیا بھر میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ  امریکہ کسی بھی ایسے اقدام کا خیرمقدم کرے گا جو صدر پوتن کو “بامعنی سفارت کاری” کے لیے مذاکرات کی میز پر لاسکے اور منصفانہ اور دیرپا امن تک پہنچا سکے۔

منصفانہ اور دیرپا امن میں مندرجہ ذیل نکات ہہر صورت شامل ہونا چاہیئیں:-

  • منصفانہ اور پائیدار امن اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق ہونا چاہیے اور اس میں خودمختاری، علاقائی سالمیت اور آزادی کے اصولوں کی توثیق کی جانی چاہیے۔
  • یوکرین کی مکمل شمولیت اور رضامندی شامل ہونا چاہیے۔
  • یوکرین کی تعمیرنو اور بحالی میں مدد کی جانا چاہیے جس میں روس کو اپنے حصے کے پیسے ادا کرنا چاہیئیں۔
  • احتساب اور مفاہمت کے حوالے سے معمالات طے کیے جانے چاہیئیں۔
  • روس کی جارحانہ جنگ کو ختم ہونا چاہیے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ “امریکہ یوکرین اور اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ہمراہ منصفانہ اور پائیدار امن میں مدد دینے کے لیے مخلص سوچ رکھنے والے کسی ایک یا تمام فریقین کے ساتھ مل کر کام کرنا جاری رکھے گا۔”

وزیر خارجہ کی تقریر کا مکمل متن یہاں پڑھیے۔