روس کے بعض فوجیوں کا یوکرین کے خلاف جنگ لڑنے سے انکار

بہت سے روسی فوجیوں کے نزدیک یوکرین میں جاری جنگ ایک ایسی جنگ ہے جس میں وہ لڑنا نہیں چاہتے۔

میڈیا کی خبروں کے مطابق بعض فوجی احکامات ماننے سے انکار کر رہے ہیں، اپنے فوجی ٹھکانوں سے بھاگ رہے ہیں یا سرحد عبور کر کے یوکرینی فوج سے جا ملتے ہیں۔

وال سٹریٹ جرنل نے جون میں خبر دی کہ البرٹ سخیبگریئف کو فروری کے اوائل میں “تربیتی مشقوں” کے لیے یوکرین کی سرحد کے قریب بھیجا گیا۔ اس کی یونٹ کے سپاہیوں کے فون ضبط کرنے کے بعد انہیں بتایا گیا کہ مشن کے لیے تیار رہیں اوربلٹ پروف جیکٹیں پہن لیں۔

جب سخیبگریئف کو آن لائن رپورٹ سے یوکرین پر حملے کے بارے میں پتہ چلا تو وہ روپوش ہو گیا۔

سخیبگریئف نے بتایا، “ہم میں سے کوئی بھی جنگ نہیں چاہتا۔”

کچھ فوجیوں کا کہنا ہے کہ انہیں گمراہ کیا گیا ہے۔

بعض فوجیوں نے بتایا ہے کہ فوجی کاروائیوں کے بارے میں ان کے ساتھ غلط  بیانی کی گئی یا اُنہیں جنگی محاذ پر جانے کے لیے ناکافی سازوسامان فراہم کیا گیا۔

 حفاظتی لباسوں میں ملبوس افراد کپڑے میں لپٹی ہوئی لاش کو ریل کے ریفریجٹڈ ڈبے میں رکھ رہے ہیں (© Efrem Lukatsky/AP Images)
یوکرینی فوجی 13 مئی کو کیئف، یوکرین میں روسی فوجیوں کی لاشیں ریل کے ریفریجٹڈ ڈبے میں رکھ رہے ہیں۔ (© Efrem Lukatsky/AP Images)

اپنا فرضی نام سرگئی بتاتے ہوئے ایک فوجی نے جون میں بی بی سی کو بتایا کہ ’’میں [جان سے] مارنے اور مارے جانے کے لیے [واپس یوکرین] نہیں جانا چاہتا۔”

سرگئی نے فوج میں دو سال نوکری کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اسے 24 فروری کے بھرپور حملے سے قبل یوکرین کی سرحد پر بھیجا گیا جس کے بارے میں اُسے بتایا گیا تھا کہ یہ فوجی مشقیں ہیں۔ اس کے برعکس وہ 24 فروری کو یوکرین میں داخل ہوا اور جنگ میں شامل ہوگیا۔

اپنے ملک واپس آنے سے پہلے اُس نے یوکرین میں پانچ ہفتے جنگ لڑتے ہوئے گزارے۔ اِس روسی فوجی نے بتایا کہ انہیں رات کو دیکھنے جیسے بنیادی آلات بھی میسر نہ تھے۔

سرگئی نے بتایا کہ “ہم بلی کے اندھے بلونگڑوں کی طرح تھے۔ میں اپنی فوج کو دیکھ کر حیران ہوگیا ہوں۔ ہمیں [ضروری] سازوسامان سے لیس کرنے پر زیادہ پیسے نہیں لگتے۔ یہ کام کیوں نہیں کیا گیا؟”

روسی صدر ولاڈیمیر پیوٹن نے 7 مارچ کو یہ بات زور دے کر کہی کہ روس یوکرین پر اپنے حملے میں لازمی فوجی سروس کے تحت بھرتی کیے جانے والے فوجیوں کو استعمال نہیں کرے گا۔ اِس کے برعکس روسی وزارت دفاع نے اس اعلان کے دو دن بعد تسلیم کیا کہ لازمی فوجی سروس کے تحت بھرتی کیے جانے والے فوجیوں نے جنگی کاروائیوں میں حصہ لیا ہے۔ یہ فوجی بالعموم اپنے جنگی مشنوں کے بارے میں بے خبر ہوتے ہیں اور انہیں لڑائی لڑنے کے لیے پوری طرح تربیت نہیں دی جاتی۔

کچھ روسی فوجی یوکرین کی طرف سے جنگ لڑ رہے ہیں

یوکرینی ماضی کے حامل بعض روسیوں نے یوکرین کے لیے لڑنے کی خاطر روس چھوڑ دیا ہے۔ ایگور وولوبوییف “گیزپروم بنک” کے سابقہ انتظامی عہدیدار ہیں۔ وہ اُس ملک کے خلاف جنگ نہیں لڑنا چاہتے  جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سال گزارے۔

 ٹینک شکن حصار کے باہر فٹ پاتھ پر کھڑا ایک آدمی (© Gleb Garanich/Reuters)
روس سے فرار ہو کر یوکرین آنے والے گیز پروم بنک کے سابقہ نائب صدر، ایگور وولوبوییف کی 28 اپریل کو کیئف ایک میں لی جانے والی تصویر۔ (© Gleb Garanich/Reuters)

آج کل کیئف میں موجود وولوبوییئف نے برطانوی اخبار روزنامہ دا گارڈین کو بتایا کہ “جیسے ہی جنگ کا آغاز ہوا تو مجھے فورا یہ احساس ہوا کہ میں [یوکرین] جانا چاہتا ہوں اور یوکرین کا دفاع کرنا چاہتا ہوں۔”

وولوبیئف کا تعلق “فریڈم آف رشیا لیجن” نامی سابقہ روسی فوجیوں کے یوکرین کی مدد کرنے والے ایک یونٹ سے ہے۔ یہ یونٹ یوکرینی فوج کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ “میں اس جرم میں شریک کار نہیں بن سکتا۔”

ایلیا بوگڈانوف روس کی “فیڈرل سکیورٹی سروس” کے سابقہ افسر ہیں۔ انہوں نے جون میں ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کو بتایا کہ وہ 2014 میں “پیوٹن کی حکومت سے لڑنے پہلی مرتبہ یوکرین آئے۔” وہ کہتے ہیں کہ وہ “جنگ برائے جنگ نہیں چاہتے۔ میں یوکرین میں امن [دیکھنا] چاہتا ہوں۔”

اِن انحرافیوں کے رد عمل میں [روسی پارلیمان] “دُوما” میں قانون سازوں نے ایک تجویز پیش کی جس کے تحت منحرفین اور روسی فوج کے خلاف لڑنے والوں یا ملیشیا فوج بنانے والے افراد کو 20 برس تک قید کی سزا دی جائے گی۔