تباہ شدہ عمارت کے سامنے سے ایک عورت لکڑیاں اکٹھی کر رہی ہے (© Evgeniy Maloletka/AP Images)
19 ستمبر کو یوکرین کے شہر ازیوم میں ایک عورت سکول کی تباہ شدہ عمارت سے لکڑیاں اکٹھی کر رہی ہے۔ اس عمارت میں روس کے فوجی رہتے تھے۔ یوکرین نے ستمبر کے اوائل میں اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ (© Evgeniy Maloletka/AP Images)

یوکرین کے عوام روس کے یوکرین کی خودمختاری سے انکار اور ان کی شناخت اور ثقافت کو مٹانے کی وحشیانہ کوششوں کے باوجود اپنے روزمرہ کے معمولات کو برقرار رکھنے کی خاطر لڑ رہے ہیں۔

روس کی “الحاق کی چالوں” کا مقصد یوکرین میں شہری زندگی کے تمام پہلوؤں کو نقصان پہنچانا ہے۔

جیسا کہ روس نے 2014 میں کریمیا میں کیا تھا اسی طرح روس نے جب ستمبر میں یوکرین کے چار علاقوں میں جعلی ریفرنڈموں کا ڈرامہ رچایا تو اس نے کڑے اقدامات نافذ کیے۔ کریملن نے ڈونیٹسک، کھیرسان، لوہانسک اور زاپوریژیا کے علاقوں کو ضم کرنے کی کوششوں میں جعلی نتائج کا استعمال کیا۔ 12 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے روس کے الحاق کی اِس کوشش کی شدید مذمت کی اور اسے غیر قانونی اور غیرموثر قرار دیا۔

جعلی ریفرنڈم سے قبل روس اپنے اِن دعووں میں تیزی لے آیا کہ یہ علاقے پہلے ہی سے “روس کا حصہ” ہیں اور ایسے کڑے اقدامات اٹھائے جن سے سکولوں میں بچوں کی تعلیم، ملازمتیں اور گھریلو زندگی متاثر ہوئی۔ اسی طرح کے اقدامات یوکرین کے اُن دیگر علاقوں میں بھی اٹھائے گئے جن پر روس کی افواج کا کنٹرول ہے یا جن پر روس کا عارضی طور پر کنٹرول تھا جنہیں بعد میں یوکرین کی افواج نے آزاد کرا لیا۔ اس کی ایک مثال نومبر میں آزاد کرایا گیا شہر کھیرسان ہے۔

سکول کی زندگی

 ایک تباہ شدہ سکول کے سامنے زمین پر الٹی پڑی ہوئی کھلی کتاب (© Anatolii Stepanov/AFP/Getty Images)
30 اگست کو ڈونیٹسک کے علاقے میں میزائلوں کے ایک حملے سے تباہ ہونے والی سکول کی عمارت کے قریب کسی طالبعلم کی سکول کی کتاب پڑی ہے۔ یونیسیف کے مطابق روس کے حملوں کی وجہ سے 30 لاکھ بچے بے گھر ہوئے اور فروری اور جون کے درمیان 20 لاکھ سے زیادہ بچے یوکرین چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ (© Anatolii Stepanov/AFP/Getty Images)

یوکرین پر روس کی جانب سے مسلط کیے جانے والے تعلیمی نصاب کو روس “روسی دنیا” کا پراجیکٹ کہتا ہے۔ روس کے زیر کنٹرول یوکرین کے علاقوں میں اِس نصاب کی مخالفت کرنے والے اساتذہ کو گرفتاری اور قید سمیت دیگر انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب یوکرین کے کچھ اساتذہ نے احتجاجاً استعفیٰ دیا تو ماسکو نے کہا کہ وہ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے روس سے اساتذہ بھیجے گا۔

کریملن کی جانب سے تعینات کیے جانے والے حکام نے ایسے بچوں کو اُن کے خاندانوں سے الگ کرنے کی دھمکی بھی دی ہے جو روس کے مسلط کردہ نصاب پڑہانے والے سکولوں میں اپنے بچوں کو داخل کرانے سے انکار کریں گے۔

ذیل میں بعض وہ دیگر اقدامات بیان کیے جا رہے ہیں جن کا مقصد روس کے زیرکنٹرول علاقوں میں یوکرین کے تعلیمی نظام کو تبدیل کرنا ہے:-

  • ماسکو نے ڈونیٹسک اور لوہانسک، زاپوریژیا، خارکیئف اور کھیرسان کے روس کے زیر قبضہ علاقوں میں والدین کو اپنے بچوں کو روس کے زیر کنٹرول سکولوں میں بھیجنے پر 167 ڈالر (10,000 روبل) کی پیشکش کی۔
  • بالاکلیا شہر کی ایک ٹیچر نے بتایا کہ روس کی افواج نے اسے یوکرین کی ہزاروں نصابی کتب کو تباہ کرنے کا حکم دیا مگر اُس نے یہ کتابیں ضائع نہیں کیں اور انہیں چھپا دیا۔
  • یوکرینی مصنفین کے تخلیق کردہ ادب کے غائب کیے جانے اور اس کی جگہ روسی مصنفین کا ادب  لانے کے اقدامات بھی متوقع ہیں۔

بعض صورتوں میں سکولوں کی عمارتوں کو بچوں کی تعلیم کے لیے استعمال کرنے کی بجائے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق روس کے فوجیوں نے ازیوم کے سکولوں کو شہریوں کو زیرحراست رکھنے اور ان پر تشدد کرنے کے لیے استعمال کیا۔ روس کے فوجیوں نے یہ کام تب بند کیا جب انہوں نے وہاں زیرحراست یوکرین کے پولیس والوں اور فوجیوں کے نام بتائے۔

 تباہ شدہ سکول کی عمارت میں سے ایک آدمی گزر رہا ہے (© Evgeniy Maloletka/AP Images)
ازیوم کے قصبے میں ایک آدمی سکول کے کھیلوں کے ہال میں سے گزر رہا ہے جسے روس کے فوجی ایک فوجی ہسپتال کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ صحافیوں نے قصبے میں تشدد کی 10 جگہوں کے بارے میں بتایا اور اس سکول سمیت پانچ سکولوں تک رسائی حاصل کی۔ (© Evgeniy Maloletka/AP Images)

گھریلو زندگی

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق روس کے حملوں سے یوکرین کی بجلی کی تقریباً 40 فیصد تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان حملوں کو جنگی جرم قرار دیا ہے۔

بہت سے خاندان بجلی کی بندش کے دوران ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے، گھروں کو گرم رکھنے اور انٹرنیٹ سروس کو بحال رکھنے کے لیے بیٹریوں، جنریٹروں اور شمسی توانائی پر انحصار کر رہے ہیں۔

یوکرین کے ایک فوجی نے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ “ہم اپنی سرزمین، اپنے بچوں کے لیے لڑ رہے ہیں تاکہ ہمارے لوگ بہتر زندگی گزار سکیں۔ مگر اِن تمام چیزوں کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔”

 ایک آدمی ریت کے حفاظتی تھیلوں سے محفوظ بنائے گئے سٹور سے ہاتھوں میں شاپنگ بیگ پکڑے باہر آ رہا ہے (© Emilio Morenatti/AP Images)
24 اکتوبر کو یوکرین کے شہر میکولائیف کے مرکز میں ایک شخص شاپنگ بیگ پکڑے ریت کے حفاظتی تھیلوں سے محفوظ بنائے گئے ایک سٹور سے باہر آ رہا ہے۔ (© Emilio Morenatti/AP Images)

بعض خاندان سرحدوں پر کی جانے والی سختیوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ ہو گئے ہیں۔ روس کی تطہیری کاروائیوں کے نتیجے میں بچوں کو ان کے والدین سے الگ کیے جانے کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کو عارضی تحویل میں رکھوانے یا گود لینے کے لیے زبردستی روس بھجوایا جا رہا ہے۔

روس کے زیر کنٹرول علاقوں سے نکلنے کی کوشش کرنے والے یوکرینی شہریوں کے لیے اپنی مکمل شناخت، واپسی کی تاریخیں اور اپنے فون کے سیریل نمبر فراہم کرنے لازمی ہیں۔

اولیکسی ساویٹسکی یوکرینی اہلکار ہیں اور روس کے زیر قبضہ علاقے سے زاپوریژیا پہنچنے والے شہریوں کی مدد کرتے ہیں۔ انہوں نے روزنامہ  واشنگٹن پوسٹ کو بتایا “چونکہ روسی سرحد سے گزرنے کے ایک مستقل، باضابطہ مقام کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لیے وہ [اوپر بیان کیے گئے] اقدامات اٹھا رہے ہیں۔”

یوکرینی شہر سویاتوہرسک جون سے لے کر ستمبر تک روس کے قبضے میں رہا۔ اِس شہر کے رہائشی حتٰی کہ اپنے مُردوں کو دفنانے کے لیے بھی گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ روزنامہ لاس اینجلیس کے مطابق فوت ہونے والے افراد کے رشتہ داروں کو اپنے پیاروں کو گھروں سے ملحقہ باغوں میں دفنانا پڑتا تھا۔

  روٹی کمانے والوں کی زندگی

جب بمباری شروع ہوئی اور روس کے فوجی آئے تو کسانوں کو اپنے کھیت چھوڑنا پڑے۔ چھوٹے کھیتوں میں بارودی سرنگیں بکھری پڑیں تھیں۔

یوکرین کی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش میں روس نے اپنے بینکوں کی شاخیں کھولیں، روسی پاسپورٹ جاری کیے اور روبل کو سرکاری کرنسی کے طور پر متعارف کرانے کی کوششیں کیں۔ روس کے زیر قبضہ علاقوں کے رہائشیوں کے لیے یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ  روسی فیڈریشن کے پاسپورٹ اور روس سے جاری کیے جانے والے ڈرائیونگ  لائسنس حاصل کریں۔

 شیشے کے پیچھے کھڑا ایک آدمی کمپیوٹر کےآگے بیٹھی عورت سے بات کرنے کا انتظار کر رہا ہے (© AP Images)
جولائی میں ڈونیٹسک کا ایک رہائشی روس کے زیرکنٹرول ڈونیٹسک کے ایک علاقے میں روسی فیڈریشن کا پاسپورٹ حاصل کر رہا ہے۔ (© AP Images)

اے پی نے رپورٹ کیا کہ زیڈیوسیوکا جیسے شہروں میں روس نے اپنی فوج کے استعمال کے لیے گاؤں کی کونسل کی عمارت، گرجا گھر، کنڈرگارٹن اور شتر مرغوں کے فارم پر قبضہ کر کے تمام شہری سرگرمیوں کو ختم کر دیا۔ اس کے نتیجے میں شہر کے باسی چیک پوسٹّوں میں گھر کر رہ گئے۔

زیڈیوسیوکا کے ساتھ ساتھ  بوچا، اوزیرا اور ببینتسی کے عینی شاہدین اور زندہ بچ جانے والوں نے اے پی اور پبلک براڈکاسٹنگ سروس کی فرنٹ لائن نامی دستاویزی سیریز کو بتایا کہ روس کے فوجیوں نے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اگر انہیں ذرہ برابر بھی یہ شک پڑ جاتا کہ یہ لوگ یوکرینی فوج کی مدد کر رہے ہیں تو روس کے فوجی اُنہیں جان سے مار ڈالتے۔

روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے بتایا کہ نومبر میں یوکرین کی جانب سے کھیرسان شہر کی آزادی کے بعد معلوم ہوا کہ روس نے اس شہر میں “جس پیمانے پر حراستی نظام چلایا وہ حالیہ ہفتوں میں یوکرینی افواج کی طرف سے آزاد کرائے گئے درجنوں دیگر شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں بھی کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔”

یوکرین کے بارے میں اقوام متحدہ کے آزاد بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن نے اکتوبر میں کہا کہ اس کے ہاس اِس نتیجے پر پہنچنے کے لیے معقول وجوہات ہیں کہ یوکرین میں جنگی جرائم اور بین الاقوامی انسانی قانون کی دیگر خلاف ورزیاں کی گئی ہیں اور انسانی حقوق کے حوالے سے زیادتیوں کا ارتکاب کیا گیا ہے۔

ایسے میں جب جنگ پھیلتی جا رہی ہے بہت سے لوگ ڈٹے ہوئے ہیں اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ ازیوم کے ہسپتال کی عمارت کا بیشتر حصہ بمباری سے تباہ ہو چکا ہے مگر اس کے باوجود ڈاکٹر مریضوں کا علاج کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ دیگر لوگ اپنی کمیونٹیوں کی تعمیر نو میں مصروف ہیں۔

ازیوم کی ایک رہائشی خاتون، ویلری نے سی این این کو بتایا کہ “ہم نے خدا سے آزاد ہونے کی دعا مانگی۔ ” ویلری نے یوکرین کی طرف سے شہر کی آزادی کو “روح کے لیے ایک مرہم” کا نام دیا۔