Girls in shanty town walking over precarious bridge (© Altaf Qadri/AP Images)
مقامی کارکنوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے بین الاقوامی انجینیروں نے کاکسز بازار میں پناہ گزینوں کے کیمپ کے علاقے کو محفوظ بنانے کی خاطر 35 مربع ہیکٹر زمین کو بہتر بنایا ہے۔ (© Altaf Qadri/AP Images)

بنگلہ دیش کے ساحلی ضلعے کاکسز بازار میں دنیا میں پناہ گزینوں کا سب سے بڑا کیمپ قائم ہے۔ یہ دنیا کی  شدید ترین مون سون بارشوں کی زد میں بھی آتا ہے جس کی وجہ سے یہاں رہنے والے 20 لاکھ سے زیادہ بنگلہ دیشی اور قریباً دس لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو سیلابوں اور تودے گرنے کے خطرات کا سامنا رہتا ہے۔

اس برس مون سون کا موسم اکتوبر میں ختم ہو گیا جس سے پناہ گزینوں کے کیمپ اور مقامی لوگوں کے علاقے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی سے محفوظ رہے۔ بڑی حد تک یہ سب کچھ امریکی معاونت سے چلنے والے اقوام متحدہ کے اداروں اور انجینیروں کے کام کی بدولت ممکن ہوا جو سڑکوں کی  تعمیرنو، نہریں کھودنے اور خطرناک ڈھلانوں کو مستحکم بنانے کے لیے دن رات کام کرتے رہے۔

Hilly community of small dwellings (© U.N./K.M. Asad)
انجینیروں کی بین الاقوامی ٹیموں نے 35 ہزار مربع میٹر سے زیادہ ڈھلوانی زمینوں کو مضبوط بنایا تاکہ کاکسز بازار کے پناہ گزینوں کے کیمپوں پر مٹی کے تودے گرنے کی روک تھام کی جا سکے۔ (© U.N./K.M. Asad)

کم و بیش زندگی کے ہر شعبے میں کیمپ کی آبادی کا انحصار امداد پر ہے جس میں خوراک، پانی، تعلیم، صحت عامہ اور پناہ گاہیں شامل ہیں۔

حال ہی میں خطے کا دورہ کرنے والی دفتر خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار ایلس ویلز کا کہنا ہے، ”میں نے  روہنگیا پناہ گزینوں کے بحران کی وسعت اور سنگینی کو حقیقی معنوں میں شدت سے محسوس کیا ہے۔ میں اس بات پر زور دینا چاہتی ہوں کہ امریکہ اس ہنگامی صورتحال میں مدد دینے اور اسے حل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔” ویلز نے کہا کہ امریکہ نے اگست 2017 میں یہ بحران شروع ہونے کے بعد سے اب تک بنگلہ دیش کو 34 کروڑ 60 لاکھ  ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کی ہے۔

لوگ وہاں کیوں ہیں؟

Line of people walking along river, carrying people and belongings (© Bernat Armangue/AP Images)
برما کے سکیورٹی کے دستوں کی جانب سے نسل کشی کے بعد کے مہینوں میں سات لاکھ سے زائد روہنگیا نسل کے لوگ مغربی برما کی راخائن ریاست سے جان بچا کر بھاگے۔ (© Bernat Armangue/AP Images)

روہنگیا اس لیے کاکسز بازار کے کیمپوں میں ہیں کہ انہیں مغربی برما میں اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے رواں سال اگست میں بتایا، ”اگست 2017 میں جنگجوؤں کے مہلک حملوں کے بعد برما کی سکیورٹی فورسز نے روہنگیا کی گھناؤنی نسل کشی کا آغاز کیا۔ امریکہ اس فعل کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عمل جاری رکھے گا۔”

نائب صدر پینس نے نومبر میں برما کی ریاستی کونسلر آنگ سان سوچی سے ملاقات میں کہا، ”فوج اور قانون ہاتھ میں لینے والے نجی گروہوں کی جانب سے تشدد اور ایذا رسانی کا کوئی جواز نہیں۔ اس کے نتیجے میں سات لاکھ روہنگیا بنگلہ دیش جانے پر مجبور ہوئے۔”

بیشتر روہنگیا مسلمان ہیں جبکہ برما میں 90 فیصد آبادی بدھ مت کی پیروکار ہے۔ برمی حکومت روہنگیا کو ملک میں رہنے والی  بہت سی دیگر نسلی اقلیتوں میں شمار نہیں کرتی اور ان کی نقل وحرکت کی آزادی اور راخائن ریاست میں خدمات تک رسائی انتہائی محدود ہے۔

خطرے سے دوچار آبادی

بحران کا حجم اور اس کے وقوع پذیر ہونے کی رفتار نے خطرناک صورتحال کو جنم دیا۔ کچی زمین پر عجلت میں تعمیر کی گئی پناہ گاہوں کا مطلب یہ ہے کہ یہاں نئے آنے والے لوگوں کو مون سون کے موسم میں سیلابوں اور مٹی کے تودوں کی زد میں آنے کے خطرات کا سامنا رہے گا۔

کیمپ بھر میں رسائی قائم رکھنے کے لیے 55000 مربع میٹر سے زیادہ جگہ پر سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور  دیگر خطرات سے  نمٹنے کے لیے عالمی برادری فوری طور پر پناہ گزینوں کی مدد کو آئی۔ عالمی ٹیموں نے سیلابوں اور مٹی کے تودوں کے آگے بند باندھنے کے لیے نئی اور موجودہ نکاسی آب کی 271000 مربع میٹر سے زیادہ جگہ بھی کھودی اور صاف کی۔

Laborers working on mound (© UNHCR/Roger Arnold)
مون سون کے موسم میں پناہ گزینوں کے کیمپوں کو محفوظ بنانے کی خاطر ہزاروں روہنگیا کارکنوں نے بنیادی ڈھانچوں اور مقامی زمیں کو بہتر بنانے پر کام کیا۔ (© UNHCR/Roger Arnold)

ایک انجینئرنگ ٹیم کے آپریشنز مینجر ڈیمن ایلس ورتھ کہتے ہیں، ”مون سون کے موسم میں ہم نے 350 مقامی اور پناہ گزین مزدوروں کو سڑک تک رسائی برقرار رکھنے اور نکاسی آب کے راستے کھلے رکھنے کے لیے کام پر لگایا۔ بہتر رسائی کا مطلب یہ ہے کہ یہاں رہنے والے خاندانوں کو بہتر تحفظ، مواقع اور خدمات مہیا ہکی جا سکیں۔”

بحران کا حل

اس بحران کا حل نکالنے کے لیے بنگلہ دیش کی کوششوں میں معاونت کرتے ہوئے امریکہ نے برما پر زور دیا ہے کہ وہ مظالم کی تحقیقات کرے اور ایسے حالات پیدا کرے جن میں مہاجرین محفوظ، باوقار اور رضاکارانہ طور سے واپس جا  سکیں۔

اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل سفیر نکی ہیلی نے ستمبر میں اقوام متحدہ میں کہا، ”امریکہ کو برما اور بنگلہ دیش میں بے گھر لوگوں، مہاجرین اور ان کی میزبان آبادی کے لیے زندگی کے تحفظ میں معاون امداد کی فراہمی میں اپنے قائدانہ کردار پر فخر ہے۔”

دفتر خارجہ کی ایلس ویلز کا کہنا ہے کہ ”برما میں روہنگیا آبادی کی جبری بیدخلی ایک سیاسی حل کا [تقاضا کرتی] ہے۔ جب تک اس کا کوئی حل نہیں نکلتا اس وقت تک، “میں اس انسانی بحران میں مسلسل فیاضانہ مدد اور متاثرہ لوگوں تک امداد کی فراہمی یقینی بنانے کی کوششوں پر بنگلہ دیشی حکومت اور عوام کا ذاتی طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔”