امریکہ برما میں اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگنے والے لاکھوں روہنگیا لوگوں کی حالت زار میں بہتری لانے کی خاطر کروڑوں ڈالر کی زندگی بچانے والی امداد بجھوا رہا ہے۔
وزیرخارجہ ریکس ٹِلرسن نے مسلم اقلیت کے خلاف مظالم پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شمالی ریاست راخائن میں تشدد کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے برمی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مہاجرین کی رضاکارانہ، محفوظ اور باوقار واپسی کو ممکن بنائے اور امدادی تنظیموں کو ملک میں مکمل رسائی دے۔
گزشتہ دو ماہ میں 603,000 روہنگیا اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ کر ہمسایہ ملک بنگلہ دیش پہنچے ہیں اور 200 دیہات نذرآتش کیے جانے کے بعد نامعلوم تعداد میں لوگ برما کے اندر ہی بے گھر ہو چکے ہیں۔

18 اکتوبر کو ٹِلرسن نے کہا، “برما کی ریاست راخائن میں جو کچھ ہو رہا ہے، حقیقی معنوں میں ہم اس کا ذمہ دار برما کی فوجی قیادت کو ٹھہراتے ہیں۔ مظالم کی جو اطلاعات آ رہی ہیں اُن پر دنیا محض خاموش تماشائی بنی نہیں رہ سکتی۔”
امریکہ انسانی امداد دینے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور 25 اگست کے بعد سے امریکہ نے قریباً چار کروڑ ڈالر فوری طور پر مہیا کیے ہیں جبکہ مالی سال 2017 میں روہنگیا سمیت بے گھر برمیوں کی مدد کے لیے مجموعی طور پر قریباً 10 کروڑ 40 لاکھ ڈالر مہیا کیے جا چکے ہیں۔
امریکی دفتر خارجہ، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین اور دیگر عالمی امدادی اداروں، شراکت کاروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے، تھائی لینڈ اور ملائشیا سمیت، برما، بنگلہ دیش اور دیگر اُن ممالک میں بے گھر روہنگیا آبادی کی مدد کر رہا ہے جہاں انہوں نے پناہ لے رکھی ہے۔

90 فیصد بدھ مت آبادی کے پیروکار ملک برما میں، بیشتر روہنگیا مسلمان ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ کئی نسلوں سے برما میں آباد ہیں مگر حکومت انہیں بنگالی کہتی ہے اور شہریت دینے کی بجائے انہیں غیرقانونی تارکین وطن قرار دیتی ہے۔ ان کا شمار ملک کی دیگر نسلی اقلیتوں میں نہیں کیا جاتا۔
برما میں طویل فوجی حکمرانی کے بعد، سویلین رہنما فوج کے ساتھ اقتدار میں شریک ہیں۔ 25 اگست کے بعد روہنگیا عسکریت پسندوں کی جانب سے راخائن ریاست میں پولیس چوکیوں اور ایک فوجی اڈے پر حملوں کے بعد علاقے میں فوج نے کارروائی شروع کر رکھی ہے۔