رویے تبدیل کرنا اور کووڈ-19 کی ویکسی نیشن میں اضافہ کرنا

نارنجی ٹی شرٹیں پہنے دو عورتیں آپس میں باتیں کر رہی ہیں اور اِن کی شرٹوں پر لکھا ہے
یوایس ایڈ اور شراکت دار زیمبیا میں کمیونٹی ہیلتھ ورکروں کو کووڈ-19 ویکسین کی حفاظت کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے تربیت دے رہے ہیں۔ ہیلتھ ورکر آئیوی کاکنگو اور پیزا چنڈاکا، کٹوے شہر میں اپنے کام کے لیے تیار ہو رہی ہیں۔ (Courtesy of Bridget Siulanda/JSI)

زیمبیا کے بہت سے شہریوں کے لیے کووڈ-19 ویکسی نیشن کے مراکز تک جانا لمبا اور مہنگا سفر ہوتا ہے۔ اِن میں سے بعض لوگ ویکسین لگوانے کے لیے صحت کے کسی مرکز میں جانے یا اپنے خاندان کے لیے کھانے کا بندوبست کرنے کی خاطر کام کرنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

چنگولا قصبے میں کمیونٹی ہیلتھ ورکر کے طور پر کام کرنے والی البرٹینا میوکاکہ کہتی ہیں کہ “اُن کے بستیوں میں جانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ وہ چار بچوں کی ماں ہیں اور کووڈ-19 کی ویکسین لگانے والی ٹیموں میں سے ایک ٹیم میں کام کرتی ہیں۔ یہ ٹیمیں زیمبیا کے بازاروں، بس اڈوں، سکولوں اور عبادت گاہوں میں جا کر لوگوں تک کووڈ-19 ویکسینوں کے بارے میں درست معلومات پہنچاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ “وہ خوش ہیں کہ ہم اُن کے پاس جاتے ہیں کیونکہ اِس سے اُن کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔”

امریکہ کا بین الاقوامی ترقیاتی ادارے [یو ایس ایڈ] اور اِس کے شراکت کار، جے ایس آئی نے ‘ یو ایس ایڈ کے ڈِسکور-ہیلتھ پراجیکٹ’ کے تحت زیمبیا کے دسیوں ہزاروں کمیونٹی ہیلتھ ورکروں کو تربیت دی ہے۔

لوگوں تک ویکسینیں پہنچانا

 دو تصویروں کا مجموعہ جس میں سے ایک میں عورت ویکسین لگوا رہی ہے اور دوسری میں ویکسی نیشن کا کارڈ لے رہی ہے (Courtesy of Bridget Siulanda/JSI)
کوئزی نے چنگولا میں ہیلتھ ورکر البرٹینا موکوکہ سے ملنے کے بعد کووڈ-19 ویکسین کا ٹیکہ لگوایا۔ (Courtesy of Bridget Siulanda/JSI)

صحت کے کارکنوں کو تربیت دینا امریکی حکومت کے دسمبر2021 میں شروع کیے جانے والے ‘گلوبل ویکسین ایکسیس’ (گلوبل ویکس) نامی پروگرام  کا حصہ ہے۔ اس کا مقصد عالمی ادارہ صحت کے 2022 میں 70 فیصد آبادی کو کووڈ-19 کی ویکسین کا ہدف پورا کرنے میں مدد کرنا ہے۔

گلوبل ویکس کی زیمبیا کے کووڈ-19 کی ویکسی نیشن میں حائل رکاوٹوں پر قابو پانے کی حکمت عملی لوگوں کے دروازوں پر جا کر براہ راست انفرادی طور پر بات کرنے پر مرکوز ہے۔ یہ سوچ کمیونٹی ہیلتھ ورکروں کو ویکسین لگانے والوں کے ساتھ جوڑتی ہے۔ لہذا جیسے ہی کوئی فرد ویکسین لگوانے کے لیے راضی ہوتا ہے تو اُسے فوری طور پر ویکسین کی خوراک لگا دی جاتی ہے۔

زیمبیا کی حکومت نے اپریل 2021 میں کووڈ-19 ویکسین لگانے کے عمل کا آغاز کیا تھا تاکہ اس سال تک 70 فیصد اہل افراد کو مکمل طور پر ویکسین لگائی جا سکے۔ تاہم ابتدا میں سپلائی میں درپیش مشکلات اور ویکسین کے بارے میں درست معلومات کے فقدان کیوجہ سے ویکسین نیشن کے کام میں تاخیرہوئی۔ امریکہ زیمبیا کو کووڈ-19 ویکسین کی 5.2 ملین سے زائد خوراکیں فراہم کر چکا ہے جو کہ امریکہ کی طرف سے دنیا کے ممالک میں پہنچائیں گئیں 575 ملین سے زائد خوراکوں کا حصہ ہے۔

12 جولائی تک زیمبیا کے ویکسین لگوانے کے اہل 43 فیصد سے زائد شہریوں کو ویکسین لگائی جا چکی تھی۔ حال ہی میں زیمبیا نے ملک میں ‘ بوسٹر ڈوز’ یعنی اضافی خوراکیں لگانے کے پروگرام کا آغاز کیا ہے۔ زیمبیا نے 12 سے 17 سال تک کی عمر کے نوجوانوں کو بھی کووڈ-19 ویکسین لگوانے کے اہل افراد میں شامل کر لیا ہے جس سے ویکسین لگوانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔

غلط معلومات کے خلاف جنگ

 ایک عورت ہاتھ میں ویکسی نیشن کارڈ پکڑے کلاس میں بیٹھے طلبا سے مخاطب ہے (Courtesy of Bridget Siulanda/JSI)
کابوے کی ایک کمیونٹی ہیلتھ ورکر، میلنڈا فیسولو طلبا کے ایک گروپ کے ساتھ کووڈ-19 ویکسین کے بارے میں بات کر رہی ہیں۔ (Courtesy of Bridget Siulanda/JSI)

ویکسی نیشن ٹیمیں اب سکولوں میں بھی جا رہی ہیں۔ زیمبیا کے شہر کابوے میں کمیونٹی ہیلتھ ورکر میلنڈا فیسولو کہتی ہیں کہ “اس کے بجائے کہ والدین بچوں کو صحت کے مراکز تک [خود] لے کر جائیں [ہمارا] براہ راست سکولوں میں جآنا یقینی طور پر فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے۔”

اس سب کچھ کے باوجود ویکسینوں کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط معلومات کے خلاف جنگ ایک مشکل کام ہے۔ زیمبیا کے کاپر بیلٹ صوبے کے شہر کٹوے کی کمیونٹی ہیلتھ ورکر آئیوی کاکنگو کہتی ہیں کہ “گو کہ ہم لوگوں کو ویکسین کے تمام فوائد سے آگاہ کر رہے ہیں پھر بھی بہت ساری افواہیں اور افسانے زیرگردش رہتے ہیں۔”

یو ایس ایڈ کے کمیونٹی ہیلتھ ورکر لوگوں کے رویوں میں تبدیلی لانا جاری رکھے ہوئے ہیں اور زیمبیا کا ویکسی نیشن کا اپنا ہدف پورا کرنے کی جانب پیش رفت کرنے میں ہاتھ بٹآ رہے ہیں۔ میوکاکہ کہتی ہیں کہ “میرا کام بڑا فائدہ مند ہے۔ جب میں کسی ایسے شخص سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوتی ہوں جس کے پاس درست معلومات ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ مجھے یہ جان کر اچھا لگتا ہے کہ ہم ایک مثبت تبدیلی لے کر ا رہے ہیں۔”

یہ مضمون ایک مختلف شکل میں میڈیم پر پہلے بھی شائع ہو چکا ہے۔