ریستوران مختلف ثقافتوں کے بارے میں جاننے کا ایک بے ضرر سا نقطہ آغاز ہوتے ہیں۔
مگر کھانے، مشروبات اور مہمان نوازی کو بھی کسی کی ثقافت کے چھن جانے کے بارے میں لوگوں کو بتانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دو ریستورانوں کے امریکی مالکان نے شیئر امریکہ کو اپنے ریستورانوں میں پیش کیے جانے والے اُن کھانوں کے بارے میں بتایا جنہیں وہ چین کے شنجیانگ صوبے میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے ویغوروں پر کیے جانے والے عشروں سے جاری ظلم و جبر کے بارے میں اپنے گاہکوں کو آگاہی دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
لاس اینجلیس میں واقع ‘دولان ویغور کزین’ نامی ریستوران میں ملازمین جو سیاہ ٹی شرٹیں پہنے ہوتے ہیں اُن کے سامنے “گوگل ویغور” جبکہ پشت پر“#closethecamps” (کیمپ بند کریں) لکھا ہوتا ہے۔ (لفظ “دولان” ویغور خطے کی ایک قوم یا علاقے کی نمائندگی کرتا ہے۔) ریستوران کے مالک بغرا ارکن نے بتایا کہ یہ یونیفارم گاہکوں کے ساتھ گفتگو کے آغاز کا سبب بنتی ہے۔

ارکن 2015ء میں یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا سے ماسٹر ڈگری لینے کے لیے امریکہ آئے۔ انہوں نے 2019ء میں یہ ریستوران کھولا۔ وہ اکثر اپنی ذاتی کہانی سنانے کے لیے گاہکوں سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔ وہ 2017ء کے بعد شنجیانگ کے دارالحکومت، ارمچی نہیں گئے کیونکہ پولیس نے اُن کے خاندان کو بتا رکھا ہے کہ واپسی پر ارکن کو “تعلیم نو کے مرکز” میں جانا ہوگا۔
درحقیقت ارکن جب آخری بار وہاں گئے تو پولیس نے نمونے کے طور پراُن کا خون نکالا، اُن کی آواز ریکارڈ کی، تصویریں اتاریں، اور اُن کی امریکہ میں مصروفیات کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ اُن کی واپسی کے چند مہینوں کے بعد سی سی پی نے غیرقانونی طور پر اُن کے والد، دوستوں اور رشتہ داروں کو جیل میں بند کر دیا۔
ارکن نے ای میل کے ذریعے بتایا، “اس چیز نے مجھے بہت مایوس کیا اور مجھے بہت غصہ آیا کیونکہ وہ لوگ تعلیم یافتہ ہیں، اُن کے مستقل روزگار ہیں، انہوں نے کمیونسٹ پارٹی کے خلاف کبھی بھی کوئی جرم نہیں کیا۔ وہ سب بے گناہ ہیں۔”
سنگین خطرات سے دوچار ثقافت
ویغور ترکی زبان سے ملتی جلتی زبان بولتے ہیں اور زیادہ تر اسلام کے ماننے والے ہیں۔ وہ ہزاروں برسوں سے مشرقی ترکستان میں رہتے چلے آ رہے ہیں۔ 1949ء نے کمیونسٹ چین نے اس خطے پر حملہ کیا اور اس کو شنجیانگ کا نیا نام دیدیا جس کے معانی “نیا علاقہ” ہیں۔
چینی حکام نے 2017ء میں ویغوروں کے خلاف اپنے ظلم و جبر میں تیزی لانا شروع کر دی۔ انہوں نے نسلی قازقوں اور دیگر مسلمانوں سمیت دس لاکھ سے زائد ویغوروں کو کیمپوں میں بند کیا جہاں انہیں اپنی مذہبی اور نسلی شناختوں کو ترک کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
امریکی حکومت نے کلیدی عہدوں پر فائز چینی عہدیداروں پر پابندیاں لگائی ہیں، جبری مشقت کے تحت تیار کی جانے والی اشیا کو روکا ہے اور چین میں مصنوعات تیار کرنے والے کاروباروں کو اُن مصنوعات کو مارکیٹ میں لانے کے خلاف متنبہ کیا ہے جو شنجیانگ میں زیادتیوں والے ماحول میں کام کرنے والے افراد بناتے ہیں۔
وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک بیان میں کہا، “چینی کمیونسٹ پارٹی کی شنجیانگ، چین میں ویغوروں اور دیگر مسلمان اقلیتوں کے انسانی حقوق کی پامالیاں اس صدی پر ایک دھبے کی حیثیت رکھتی ہیں۔”

کبابوں کے ساتھ خبریں
ویغور کھانوں میں آپ کو انڈیا، مشرق وسطی، ترکی، وسطی ایشیا، چین اور کئی ایک علاقوں کے ذائقے ملیں گے۔ زیادہ تر کھانوں میں کباب شامل ہوتے ہیں۔ یہ کباب ایک کھلی انگیٹھی میں دہکتی آگ پر تیار کیے جاتے ہیں اور اِن پر زیرہ چھڑکا جاتا ہے۔ سبزی کے ساتھ ہاتھ سے بنائے ہوئے تازہ نوڈلوں سے تیار کیا جانے والا ایک اور مقبول ویغور کھانا لغمان ہے جسے چٹ پٹی چٹنی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ یہ کھانا امریکی ریستورانوں کے کھانوں میں بھی پیش کیا جاتا ہے۔
ارکن نے بتایا کہ ویغورلغمان کھائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ اُن میں اسی طرح مقبول ہے جیسے امریکہ میں پنیر مقبول ہے۔
حامد کریم واشنگٹن میں “دولان ویغور ریستوران” کے مالک ہیں۔ یاد رہے کہ لاس اینجلیس کے اس نام کے ریستوران سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ وہ کھانوں کو ویغوروں کی حالت زار کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے ایک بڑے ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ترجمان کے ذریعے انہوں نے بتایا کہ گاہک کھانے کے تازہ اجزا پر تبصرہ کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس کھانے کا تعلق کس علاقے سے ہے۔ “اگر گاہک کے پاس سننے کا وقت ہو اور اسے دلچسپی ہو تو میں کچھ خبریں دینے کی کوشش کرتا ہوں۔”
واشنگٹن میں واقع دولان ویغور ریستوران کا ایک مشہور کھانا “لغمان”۔ (© Deb Lindsey/Washington Post/Getty Images)کریم ہمیشہ ریستوران ہی نہیں چلاتے رہے۔ وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ہمراہ 2016ء میں امریکہ آئے۔ وہ بین الاقوامی تجارت کا کاروبار چلاتے تھے۔ اپنا کاروبار چلانے کے لیے وہ 2017ء میں ارمچی لوٹ گئے۔ مگر جب چند مہینے بعد انہیں علم ہوا کہ ان کا نام بھی قید کیے جانے والے افراد کی فہرست میں شامل ہے تو وہ وہاں سے بھاگ نکلے۔
روانگی سے پہلے کریم اپنی والدہ کو خدا حافظ بھی نہ کہہ سکے۔ چین سے نکل آنے کے بعد انہیں علم ہوا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اُن کی کمپنی کی 15 برانچوں کو قومیا لیا ہے۔ تاہم انہوں نے واشنگٹن میں زندگی کا نئے سرے سے آغاز کیا۔ انہوں نے 2018ء میں اپنا ریستوران خریدا جس کے سابقہ مالکان بھی ویغور تھے۔
کریم نے کہا، “میں خوش قسمت ترین آدمی ہوں کہ میں امریکہ میں ہوں اور مجھے ایک آزاد ملک میں رہنے کا موقع ملا ہے۔”