برکنگز انسٹی ٹیوشن کی تیار کردہ ایک حالیہ رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وینیز ویلا کا معاشی زوال برسوں پہلے شروع ہو چکا تھا۔ کسی وقت جنوبی امریکہ کے امیرترین ملک، وینیز ویلا کو مادورو کی سابقہ حکومت کی بدعنوانیوں اور بدانتظامیوں نے تیل کی سکڑتی ہوئی برآمدات اور بے تحاشا افراط زر کے گرداب میں دھکیل دیا۔
اس رپورٹ کے مطابق اگر گزرے ہوئے برسوں میں وینیز ویلا کے سماجی اور اقتصادی نتائج کا تجزیہ کیا جائے تو “یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کہ معیارات زندگی میں خرابیوں کی ایک بڑی تعداد 2017ء میں [امریکہ کی طرف سے] پابندیوں کے نفاذ سے بہت پہلے شروع ہو چکیں تھیں۔”
حتٰی کہ حکومت کے زیرانتظام چلنے والے وینیز ویلا کے مرکزی بنک نے بھی بتایا کہ 2017ء میں افراط زر کی شرح 850% تھی اور اس بات کی تصدیق کی کہ وینیز ویلا کی جی ڈی پی 2014ء کے آغآز سے ہر سہ ماہی میں کم ہوتی چلی آ رہی۔
نیچے دیئے گئے تین گراف وینیز ویلا میں معاشی اور سماجی بحرانوں کی عکاسی کرتے ہیں: