زرعی حیاتیاتی ٹکنالوجی کے استعمال کا نتیجہ زیادہ پیداوار

کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی ایک عورت نے ہاتھ میں کونپلوں والا ایک ڈبہ پکڑا ہوا ہے (© Pius Utomi Ekpei/AFP/Getty Images)
سائنسدان کفایات فلانا 2017ء میں ابادان، نائجیریا میں استوائی زراعت کے بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ میں گوار کے بیج ٹیسٹ کر رہی ہیں۔ (© Pius Utomi Ekpei/AFP/Getty Images)

دنیا بھر کے کسان فصلوں کی پیداوار میں اضافے، کیڑے مار ادویات کی ضرورت میں کمی اور بھوک کے شکار طبقات کو خوراک مہیا کرنے کے لیے زرعی سائنس میں ہونے والی پیش رفتوں سے فائدے اٹھا رہے ہیں۔

مثال کے طور پر نائجیریا میں حکومت نے حال ہی میں تجارتی بنیادوں پر استعمال کے لیے جینیاتی طور پر تیار کی گئی گوار کی پہلی قسم کے استعمال کی سفارش کی ہے جسے افریقی، امریکی اور آسٹریلیائی محققین کے نیٹ ورک کے ساتھ مل کر نائجیریا کی ذریا میں قائم احمدو بیلو یونیورسٹی کے زرعی تحقیق کے انسٹی ٹیوٹ نے تیار کیا ہے۔

گوار نائجیریا میں روزمرہ استعمال کی جانے والی خوراک کا ایک اہم حصہ ہے۔ ماروکا ویٹراٹا نامی گوار کی پھلیوں میں سوراخ کرنے والے کیڑے گوار کی ایک عام فصل کو 80 فیصد تک تباہ کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے کسان مہنگی اور زہریلی کیڑے مار دوائیں استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جبکہ کسان دواؤں کے استعمال کے دوران اکثر حفاظتی اقدامات بھی اختیار نہیں کرتے۔ نیا گوار کیڑوں کا مقابلہ کر سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں کیڑے مار دواؤں کی ضرورت کم ہو جاتی ہے۔

گوار کے ڈھیر سے ایک آدمی گوار نکال رہا ہے (© Cornell Alliance for Science)
نائجیریا کی ایک منڈی میں ایک آدمی تھیلے میں گوار ڈال رہا ہے۔ استوائی زراعت کے بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق دنیا بھر میں نائجیریا میں گوار کی پیداوار اور استعمال سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ (© Cornell Alliance for Science)

جب نومبر میں گوار کی اس ترمیم شدہ قسم کی منظوری دی گئی تو نائجیریا کے ایک کسان اونواؤلے پیشنس کوکو نے لکھا، “میں یہاں نائجیریا میں گوار کی فصل نہیں اگانا چاہتا تھا” اس کی وجہ کیڑے اور خاص طور پر گوار کی پھلی میں سوراخ کرنے والا کیڑا تھا۔ “اب میرے جیسے نائجیریا کے تمام کسانوں کے ہاتھوں میں اس خوفناک کیڑے کو شکست دینے کا ایک ہتھیار آ گیا ہے۔”

کیڑوں کے خلاف مدافعت رکھنی والی گوار کی اس قسم کی تیاری ایک بین الاقوامی کاوش تھی۔ امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے (یو ایس ایڈ) اور نائجیریا کے زرعی تحقیقی انسٹی ٹیوٹ کی مدد سے مندرجہ ذیل اداروں کے ساتھ مل کر یہ کام کیا گیا:-

  • آسٹریلیا کی دولت مشترکہ کی سائنسی اور صنعتی تحقیق کی تنظیم۔
  • زرعی ٹکنالوجی کی افریقی فاؤنڈیشن۔
  • امریکی ریاست انڈیانا کی پرڈیو یونیورسٹی۔
  • امریکی ریاست مزوری میں ڈونلڈ ڈینفورتھ کا پودوں کا سائنسی مرکز۔
  • استوائی زراعت کا بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ۔

دنیا بھر میں کامیابی سے ہم کنار

بی ٹی برنجل کے2019ء کے مطالعے کے مطابق یو ایس ایڈ اور امریکی حکومت کے ‘فیڈ دا فیوچر” (مسقبل میں کھانا کھلاؤ) نامی پروگرام کی مدد سے بنگلہ دیش میں کئی برسوں سے کسان پہلے ہی سے جنیاتی طور پر برنجل (بینگن) کامیابی سے اگا رہے ہیں اور کھا رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں کسانوں کے منافعوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

ایک آدمی بینگن چن رہا ہے (© Cornell Alliance for Science)
تانگیل، بنگلہ دیش میں خلیل الرحمان ترمیم شدہ بینگن چن رہے ہیں۔ عارف حسین کے مطابق اِس طرح کی سبزیوں اور فصلوں کے استعمال سے کسانوں کے کیڑے مار داؤں کے استعمال میں 98 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ (© Cornell Alliance for Science)

“فارمنگ فیوچر بنگلہ دیش” (بنگلہ دیش میں کاشتکاری کے مستقبل) کے سربراہ عارف حسین کا کہنا ہے، ترمیم شدہ بینگن کو استعمال میں لاتے ہوئے کسانوں کے “اصلی منافعوں میں نقصان دہ اثرات کے بغیر چھ گنا اضافہ ہوا۔” انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ کسانوں کے کیڑے مار دواؤں کے استعمال میں بھی 61 تا 98 فیصد کمی آئی ہے۔

جائزوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جینیاتی ترمیم شدہ پودے محفوظ ہوتے ہیں اور چونکہ وہ بھوک کے خاتمے میں کامیاب ثابت ہوئے ہیں اس لیے سائنسدان حکومتوں سے جینیاتی طور پر ترمینم شدہ فصلوں کو منظور کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تا کہ دنیا بھر میں لوگوں کو خوراک مہیا کرنے میں مدد کی جا سکے۔

زرعی سائنس کا فروغ

محفوظ اور موثر زرعی حیاتیاتی ٹکنالوجی کی ترقی میں ربط و ضبط پیدا کرنے کے لیے صدر ٹرمپ 2019ء میں قانونی عمل کو آسان بنانے کے ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کرچکے ہیں۔

صدر نے کہا کہ انہوں نے یہ اقدام اس لیے اٹھایا ہے “تاکہ کسان انتہائی اہم سائنسی پیش رفتوں تک تیزی سے رسائی حاصل کرسکیں، اور مستقبل میں کئی سالوں تک امریکی جدت طرازی کے مکمل فوائد حاصل کر سکیں۔”

وزیر زراعت سونی پرڈیو نے کہا، “حیاتیاتی ٹکنالوجی میں سائنس پر مبنی ترقیوں سے دیہی خوشحالی اور [لوگوں] کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے بہت بڑے امکانات موجود ہیں۔”