زچہ بچہ کی صحت میں بہتری لانے کا ایک نیا طریقہ

امریکی حکومت اور عالمی شراکت کاروں کے تعاون سے اٹھائے گئے اقدام کی بدولت شمال مغربی بھارتی ریاست راجستھان میں حاملہ عورتوں اور نومولود بچوں کو صحت و نگہداشت کی بہتر سہولتیں میسر آئیں گی۔

زچہ بچہ کی صحت میں بہتری کا بندھن‘ راجستھان میں صحت عامہ کے 440 چھوٹے نجی مراکز میں ماؤں اور نومولود بچوں کی صحت بہتر بنانے میں مالی معاونت کا ایک نیا طریقہ ہے۔

اس سلسلے میں نجی شعبے کے ذریعے اس پروگرام کی مالی معاونت کی جاتی ہے مگر بعد ازاں حکومت، عالمی امدادی ادارے اور نجی تنظیمیں چند شرائط کے ساتھ یہ رقم واپس لوٹا دیتی ہیں۔

پروگرام کا طریقہ کار کچھ یوں ہے: سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والی عطیات دینے والی ‘یو بی ایس اوپٹیمس فاؤنڈیشن’ نامی تنظیم  راجستھان کے نجی طبی مراکز میں صحت کی سہولتوں میں بہتری اور زچہ بچہ کی اموات میں کمی لانے کے لیے رقم مہیا کرتی ہے۔ اس سے توثیقی معیارات پر پورا اترنے میں مدد ملتی ہے۔ اگر مخصوص اہداف حاصل ہوں تو امریکی حکومت اور کوئی نجی تنظیم یہ رقم واپس لوٹا دیتی ہے۔ ان اہداف میں انفیکشن کی روک تھام کے ضوابط پر عمل اور نئی ماؤں کو تعلیم کی فراہمی شامل ہیں۔

اس کوشش کی بدولت آئندہ پانچ برس میں قریباً 6 لاکھ خواتین کے لیے دورانِ زچگی زندگی بچانے کی ادویات تک رسائی میں اضافہ اور بہتر نگہداشت میسر آ سکتی ہے۔

عالمی ترقی کے امریکی ادارے (یوایس ایڈ) میں شعبہِ صحت سے متعلق مالیاتی مشیر اور اس پروگرام کی منتظم  پریا شرما کہتی ہیں، “یہ صحت کے حوالے سے اب تک اپنی نوعیت کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔” شرما کے مطابق ان کا کام یہ تعین کرنا ہے کہ “نجی شعبے کے بہترین طریقوں کا حصول اور عالمگیر صحت و ترقی کے لیے ان کا اطلاق کیونکر ممکن ہو۔”

زچہ بچہ ہی کیوں؟

اگر بچے کی پیدائش سے پہلے، دوران اور پیدائش کے بعد ماؤں کو خاطرخواہ طبی نگہداشت میسر آئے تو ان میں بیشتر اموات کی روک تھام ممکن ہوسکتی ہے۔ دورانِ حمل بلند فشار خون، بچے کی پیدائش کے دوران بڑی مقدار میں خون کا بہہ جانا اور بعد از پیدائش انفیکشن کا شمار چند ایسی بڑی پیچیدگیوں میں ہوتا ہے جو ماؤں کی جان کے لیے خطرہ ہوتی ہیں اور مناسب طبی نگہداشت اور نگرانی کے ذریعے ان کی روک تھام اور علاج ممکن ہے۔

شرما نے سانس کے مسائل سے دوچار نومولود بچوں میں سانس کی بحالی کے آلات کی فراہمی کی مثال دیتے ہوئے بتایا، “اس پروگرام سے یہ امر یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ طبی مراکز میں اعلیٰ معیار کی ادویات اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے آلات موجود ہوں۔ یہ پروگرام تین سال تک جاری رہے گا مگر شرما کے مطابق اعلیٰ نگہداشت اور زچگی سے متعلق عملے کی طبی تربیت کی بدولت اس کے فوائد طویل عرصہ تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔

راجستھان ہی کیوں؟

مقامی حکومتوں کی جانب سےصحت عامہ کی سہولیات میں بہتری کی کوششوں کی باوجود بھارت میں زچہ بچہ میں شرحِ اموات کے اعتبار سے راجستھان سرفہرست ہے۔ ریاستی حکومت ماؤں اور نومولود بچوں کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے پرعزم ہے۔ شرما کہتی ہیں، “مقامی حکومت اس پروگرام کی ایک متحرک شراکت دار ہے۔”

راجستھان کی وزارت صحت کے عہدیدار نوین جین کہتے ہیں، “ہم سرکاری و نجی شراکتوں اور نجی سرمائے کی شمولیت کو اس مقصد کے حصول کی خاطر ایک لازمی حکمت عملی تصور کرتے ہیں۔”

کامیابی کے لیے شراکت دار

یو ایس ایڈ کے منتظم مارک گرین نے نومبر میں بھارت میں منعقدہ ‘کاروباری نظامت کی عالمی کانفرنس‘ کے موقع پر راجستھان بانڈ شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا، “نتائج کی بنیاد پر مالی معاونت کا یہ طریقہِ کار اس اعتبار سے اختراعی ہے کہ اس میں ترقی کے لیے کاروباری سوچ اختیار کی گئی ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ نگہداشت اور نجی طبی سہولیات میں بہتری کو بھی ہدف بنایا گیا ہے۔”

گرین کہتے ہیں، “سرکاری و نجی شعبہ جات میں شراکت کاروں کے متنوع گروہوں کے وسائل اور صلاحیتوں کی بدولت ہم مزید زندگیاں بچاتے ہوئے اپنی سرمایہ کاری کا دائرہ پھیلا رہے ہیں۔ یہ طریق کار یو ایس ایڈ کے متنوع انداز سے کام کرنے کی ایک مثال ہے۔”