زیادہ سے زیادہ خواتین کو خلاباز بنانے کا مشن

خلائی سٹیشن پر کیڈی کولمین بانسری بجا رہی ہیں (NASA)
ناسا کی سابقہ خلا باز کیڈی کولمین دنیا بھر کے ممالک میں جاتی ہیں اور عورتوں اور لڑکیوں کو سائنس، ٹکنالوجی، انجنیئرنگ اور ریاضی کے شعبے اختیار کرنے میں ہمت افزائی کرتی ہیں۔

جب خلاباز کیڈی کولمین بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر رہتی تھیں تو وہ اپنے بالوں سے کھیلا کرتی تھیں۔ صفر کشش ثقل میں رہتے اور کام کرتے ہوئے وہ درمیانی لمبائی کے اپنے بھورے بالوں کو سر ر اڑنے دیتی تھیں۔

کیڈی کولمین خلائی ستیشن پر اپنے بال دھو رہی ہیں۔ (NASA)
کیڈی کولمین خلا میں اپنے بال دھو رہی ہیں۔ (NASA)

زمین پر متجسس شائقین کے لیے عملے کی مصروفیات کی ایک ویڈیو میں کولمین نے سکول کی بس جتنی چوڑی راہداریوں میں اپنے بے وزن جسم کو حرکت دی تو اُن کے بال اُن کے اردگرد لہرانے لگے۔ وہ دسمبر 2010 سے مئی 2011 تک خلائی سٹیشن پر رہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ “صفر کشش ثقل کی طرز زندگی” یہ بات کہنے کا ایک طریقہ ہے کہ “عورتوں کا تعلق خلا” سے ہے۔

کولمین بتاتی ہیں کہ “ایسے لوگوں کو ہر قسم کے کام کرتے ہوئے دیکھنا واقعی اہم ہے جو آپ کی طرح دکھائی دیتے ہیں اور ہر طرح کے کام کرتے ہیں۔ خود کو حیرت انگیز کام کرنے والی خواتین کے روپ میں دیکھنے کے قابل ہونے سے یہ کام معمولی دکھائی دینے لگتے ہیں۔”

اقوام متحدہ کے مطابق خواتین سائنسی محققین کی مجموعی تعداد کا ایک تہائی، قومی سائنس اکیڈمیوں کے اراکین کا 12% ، انجینئرنگ گریجوایٹوں کا 28% اور کمپیوٹر سائنس اور انفارمیٹکس گریجوایٹوں کا 40% حصہ ہیں۔

ناسا کا 2025 کے اوائل میں راکٹ بھیجنے کا پروگرام ہے جس میں پہلی خاتون اور پہلاغیرسفید فام فرد سوار ہوںگے۔ یہ چاند پر تحقیق کا کام کریں گے جو کہ وہاں موجودگی قائم کرنے اور ممکنہ طور پر لوگوں کو مریخ پر بھیجنے کی سمت میں ایک بڑا قدم ہو گا۔ کولمین کے خیال میں جب یہ کام ہوگا تو اس سے اگلی نسل کے لیے “حالات بدل  جائیں گے۔”

1960 کی دہائی میں بڑی ہونے والی کولمین نے اپالو کے خلابازوں کی میڈیا  پر وہ تصاویر دیکھیں جن میں چھوٹے چھوٹے بالوں والے تمام کے تمام خلاباز مرد ہوا کرتے تھے۔ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کے کالج میں سال اول تک اُن کے ذہن میں خلاباز بننے کا کوئی خیال نہیں تھا۔ پھر انہوں نے اپنے کالج میں سیلی رائیڈ کی تقریر سنی اور خلاباز بننے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔

سیلی رائڈ فلکیاتی طبیعیات کی سائنسدان تھیں اور خلا میں جانے والی پہلی امریکی خاتون تھیں۔ کولمین کو رائڈ کے اپنی طرح کے کندھوں تک لمبے بال آج بھی یاد ہیں۔ انہوں نے طالبعلموں کو بتایا کہ “سائنس ایک ٹیم کا کھیل ہے اور اسی طرح خلائی تحقیق بھی [ٹیم کا کھیل] ہے۔”

کولمین بتاتی ہیں کہ “مجھے یہ بات بہت پسند آئی۔ میں نے اپنی شناخت اُن [رائڈ] کے ساتھ کی اور میں نے بھی یہ کام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔”

فلائٹ ڈیک پر مسکراتی ہوئی سیلی رائڈ (NASA)
خلاباز سیلی رائڈ 1983 میں ایس ٹی ایس-7 مشن کے دوران۔ (NASA)

کولمین نے کیمسٹری میں ڈگری حاصل کی، پولیمر سائنس اور انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ مکمل کی اور ایئر فورس میں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے 1992 میں ناسا میں خلاباز بننے کے لیے درخواست دی اور انہیں تین خواتین اور 16 مردوں کے ہمراہ خلابازوں کے طور پر منتخب کر لیا گیا۔ شروع میں کولمین نے خلائی شٹل کی اعانتی ٹیم میں کام کیا۔ بعد ازاں 1990 کی دہائی میں انہیں سائنس سے متعلق دو شٹل مشنوں پر بھیجا گیا۔ جس کے بعد وہ اپنی چھ ماہ کی خلائی سٹیشن کی مہم پر گئیں۔

وہ 2016 کے آخر میں ناسا سے ریٹائر ہوئیں۔ تب سے وہ دنیا کا سفر کرتی رہتیں ہیں اور خواتین اور لڑکیوں کو اسی طرح متاثر کر رہی ہیں جیسے انہیں سیلی رائڈ نے متاثر کیا تھا۔ اُن کی شادی شیشے کے آرٹست، جوش سمپسن سے ہوئی ہے۔ اُن کے دو بیٹے ہیں۔ کولمین ناسا میں گزاری اپنی ایک دہائی طویل پیشہ ورانہ زندگی کے ساتھ ساتھ موسیقار، بیوی اور ماں کی حیثیت سے ایک کتاب بھی لکھ رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ کتاب کو اس شرط پر ایک کامیاب کتاب گردانے گیں اگر مردوں اور عورتوں سمیت سب قارئین یہ کہیں کہ “ہو سکتا ہے میں بھی ایسا کر سکوں۔”

یہ مضمون فری لانس مصنفہ، بارا وائیڈا نے تحریر کیا۔ 

اس سے قبل یہ مضمون 7 فروری کو شائع کیا جا چکا ہے۔