زیمبیا کے نوجوانوں نے اپنے ملک کے 2021 کے صدارتی انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اِن میں سے بہت سے اس کے بعد بھی مصروف عمل رہنے کے لیے تیار ہیں۔
ایک نوجوان متحرک کارکن، مویلا بوانگا نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے زیمبیا کی پارلیمنٹ کی ایک نشست کے لیے انتخاب لڑا اور تیسرے نمبر پر آئے۔ اب ان کا کسی اعلیٰ عہدے کے لیے دوبارہ انتخاب لڑنے کا ارادہ ہے۔ اسی اثنا میں وہ BeRelevant Africa [بی ریلیونٹ افریقہ] نامی تنظیم کے ذریعے نوجوانوں کی سیاسی طور پر فعال ہونے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے (یو ایس ایڈ) کے تعاون سے 2018 میں اس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔
بوانگا نے کہا کہ سیاسی جماعتوں اور شہری تنظیموں کو نوجوان شہریوں کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے شیئر امریکہ کو بتایا، “اگرچہ نوجوانوں کی باہر نکلنے اور ووٹ دینے کی مسلسل حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تاہم ہمیں یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ اگر ہم اپنی مختلف سیاسی جماعتوں میں مستقبل کی قیادت کا ایک عظیم منصوبہ چاہتے ہیں تو انہیں اہم قیادتی عہدوں کے لیے تیار کرتے وقت ہم ان کو اہم شراکت دار سمجھیں۔” .
جمہوریت کے لیے تیاری
بی ریلیونٹ کا 2022 کا ابھرتی ہوئی نوجوان قیادت کا پراجیکٹ انتخابات کے تحرک سے فائدہ اٹھانے کے لیے پرامید ہے۔ اس اقدام سے 500 نوجوان لیڈروں کو جمہوریت، گورننس اور شہری شراکت کے بارے میں تربیت دی جائے گی۔ بوانگا کہتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ نوجوان شہری، لیڈروں کو جوابدہ ٹھہرائیں اور “ہماری قوم کی متضاد حقیقتوں کا حل” نکالیں۔
بوانگا نے صدر بائیڈن کی میزبانی میں 9-10 دسمبر کو ہونے والی جمہوریت کی ورچوئل سربراہی کانفرنس میں بھی شرکت کی تھی۔ بوانگا نے ریاستوں کے سربراہان سے کابینہ کی سطح پر نوجوانوں کے خصوصی مشیروں کا تقرر کرنے کی سفارش کی۔

ستمبر 2021 میں صدر بائیڈن نے اقوام متحدہ کو بتایا کہ جمہوری دنیا “زیمبیا کے اُن نوجوانوں میں بستی ہے جنہوں نے اپنے ووٹ کی طاقت کا استعمال کیا۔” انہوں نے کہا کہ نوجوان”بدعنوانی کی مذمت کرنے اور اپنے ملک کے لیے ایک نئی راہ متعین کرنے کے لیے” ایک ریکارڈ تعداد میں باہر نکلے۔
“آپریشن ینگ ووٹ” زیمبیا کے نوجوان لوگوں کو ووٹ دینے کے لیے رجسٹریشن کرانے اور انتخابات کے بعد مصروف رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔
اس گروپ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، گس نائرینڈا نے شیئر امریکہ کو بتایا، “آپریشن ینگ ووٹ ہمیشہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اضافی کوششیں کرتا ہے کہ نوجوان اپنے حقوق کی اہمیت جانننے اور اپنے منتخب عہدیداروں کے احتساب کا مطالبہ کرنے کے لیے ووٹ ڈالنے سے آگے بڑھیں۔”
اس گروپ کی دیگر سرگرمیوں کے علاوہ مندرجہ ذیل اقدامات بھی شامل ہیں:-
- اپنے ووٹ کی پیروی کریں” کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کے تحت نوجوان ووٹر حکومت کی تمام سطحوں پر منتخب عہدیداروں سے مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور عہدیداروں سے ان کے مہم کے وعدوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔
- یہ گروپ ملک کے حقوق کے منشور کو مضبوط بنانے کے لیے قانون سازی کی حمایت کرتا ہے۔
- اس گروپ کا منصوبہ ہے کہ متعدد کمیونٹیوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے کلب کھولے جائیں۔ یہ کلب نوجوانوں کے اُن امریکی کلبوں کی طرز پر بنائے جائیں گے جو اس گروپ نے امریکہ میں قیادت کے تبادلے کے بین الاقوامی پروگرام کے تحت کیے جانے والے اپنے دورے کے دوران دیکھے تھے۔
نوجوان میدانِ عمل میں
نائرینڈا نے بتایا کہ ووٹنگ کے سلسلے میں کام کرنے والے نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا، “سیاسی نظام اور بالعموم حکمرانی میں نوجوانوں کی شرکت کی ضرورت اور حق کے بارے میں آگاہی میں اضافہ ہوا ہے اور نوجوانوں میں شرکت کی خواہش پائی جاتی ہے۔”
مکواوی چنگلہ سچولا نے “یوتھ لیڈ” نامی پروگرام سے حاصل ہونے والے اپنے تجربے کو عوامی عہدے کے لیے انتخابی مہم شروع کرنے کے لیے استعمال کیا۔ بوانگا کی طرح انہوں نے بھی اگست 2021 کے انتخابات کے دوران پارلیمنٹ کی ایک نشست کے لیے انتخاب لڑا اور تیسرے نمبر پر آئے۔
یوتھ لیڈ حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والا یو ایس ایڈ کا ایک پروگرام ہے۔ اس کے پروگرام میں روزگار یا انٹرنشپ کے ذریعے زیمبیا کے شہریوں پر معاشرتی معاملات میں شرکت، عوامی نظم و نسق اور کاروباری نظامت کاری پر زور دیا جاتا ہے۔
یوتھ لیڈ کے ذریعے ٹاپیلا لنگو نے ایک غیر سرکاری تنظیم، زیمبیئن گورننس فاؤنڈیشن کے ساتھ چھ ماہ انٹرن کی حیثیت سے کام کیا۔ آج کل لنگو “اوپن ڈورز پراجیکٹ” کے کمیونیکیشن آفیسر ہیں۔ آبادی کے جائزے کے اس پراجیکٹ کو یو ایس ایڈ اور پیپ فار کا تعاون حاصل ہے۔ پیپ فار ایڈز کے خاتمے کے لیے امریکی صدر کے ہنگامی پروگرام کا مخفف نام ہے۔ لنگو بیماریوں سے بچاؤ اور علاج پر تحقیق کرتے ہیں اور ایچ آئی وی/ایڈز کے مریضوں کی زندگیوں کے بارے میں بلاگ لکھتے ہیں۔ وہ اپنے کام کے نتیجے میں ایوارڈ بھی جیت چکے ہیں۔
لنگو نے کہا، “مجھے حاصل ہونے والے علم، تجربے، ماحول اور رابطوں نے مجھے اس مقام پر پہنچنے میں مدد کی جہاں میں آج کھڑا ہوں۔”
