حال ہی میں چار درجن ممالک کی سائنس دان، ماہرینِ تعلیم اور عورتوں کی ترقی کی حامی خواتین، امریکی سائنس دانوں سے ملنے امریکہ آئیں۔ ایک مقبول فلم سے متعلق کیا جانے والا پروگرام، اُن کے آنے کی بنیادی وجہ تھی۔
‘ ہِڈن فگرز‘ [چھپی ہوئی شخصیات] نامی یہ فلم باکس آفس پر کامیاب ہوئی اور اسے متعدد آسکر ایوارڈز کے لیے نامزد کیا گیا۔ اس کی وجہ فلم کی متاثر کن کہانی ہے جس میں غیرمعروف افریقی نژاد ذہین امریکی ریاضی دان خواتین کو دکھایا گیا ہے۔ اپنے خلاف امتیازی سلوک کے باوجود اِن خواتین نے امریکی خلائی پروگرام کے آغاز میں مدد دی۔ اس فلم میں اب امریکی دفتر خارجہ کے 48 مہمانوں کے اِس گروپ کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے۔
خواتین پر مشتمل مہمانوں کا یہ گروپ ‘ انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام ‘ [بین الاقوامی مہمانوں کی قیادت کے پروگرام] کے تحت امریکہ آیا۔ ان کے تبادلے کو ‘#HiddenNoMore ‘مزید چھپی نہیں رہیں: خواتین رہنماؤں کی سائنس ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ اور ریاضی میں بااختیاری’ قرار دیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت یہاں آنے والی خواتین کو ‘قومی فضائی اور خلائی ادارے [ناسا]، صحت کے قومی ادارے، اور دوسرے سائنسی اداروں میں خواتین رہنماؤں کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع ملا۔
خواتین کے اس گروپ نے ملک بھر کا دورہ کرنے سے قبل واشنگٹن میں نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے مرکز میں ‘ہڈن فگرز‘ فلم بھی دیکھی۔
تین ہفتوں پر مشتمل یہ دورہ 27 اکتوبر کو لاس اینجلیس میں اختتام پذیر ہوا۔ ان خواتین کو فلم ‘ہڈن فگرز’ کے پروڈیوسروں سے ملنے اور یوسی ایل اے، سپیس ایکس اور ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری میں خواتین سائنس دانوں سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع بھی ملا۔
یہاں پر بننے والی نئی سرپرستوں نے مہمان خواتین کو بتایا کہ کیسے وہ اپنے ممالک میں ایسی حکمت عملی کو ترقی دے سکتی ہیں جس کی بدولت خواتین کو اُن رکاوٹوں اور طرزہائےعمل پر غالب آنے میں مدد ملے گی جن سے ان کی سائنس، ٹیکنالوجی، ریاضی اور انجینئرنگ کے شعبوں میں پیشے اختیار کرنے میں حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ (ان شعبہ جات کو ‘ایس ٹی ای ایم’ یا سٹیم کہا جاتا ہے۔)
Nov 8, author @margotshetterly will share her work uncovering #HiddenFigures. #AskMargotLeeShetterly #HiddenNoMore https://t.co/SEKS746ESn pic.twitter.com/lv42BHzg3W
— Exchange Programs (@ECAatState) October 17, 2017
شرکاء نے نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں اپنے سرپرستوں کے بارے میں اور اگلی نسل کی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے متعلق گفتگو کی۔
میکسیکو سے تعلق رکھنے والی انجنیئر جینیفر وینیا کہتی ہیں، “ذہنیت بنیادی مسئلہ ہے۔ ہمارے پاس کام کے مواقع موجود ہیں مگر سائنس، ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ اور ریاضی میں لڑکیاں اور خواتین بڑی تعداد میں نہیں آتیں۔ اس کی بجائے وہ تدریس اور انتظامیہ سے متعلق شعبہ جات میں ڈگری لینے کو ترجیح دیتی ہیں۔” جینیفر وینیا نے دو غیرمنفعتی ادارے قائم کیے ہیں۔ ان اداروں میں نوجوانوں کو روبوٹوں سے متعلق تعلیم دی جاتی ہے اور یہ ادارے سٹیم مضامین میں دلچسپی پیدا کرتے ہیں۔
بحرین کی عریبین گلف یونیورسٹی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر، عفاف بوغاوا کہتی ہیں، “ہم اوائل عمری سے ہی سائنس، ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ اور ریاضی میں دلچسپی کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں۔ درس و تدریس کا شعبہ بھر چکا ہے۔ انہیں مختلف قسم کے پیشے اپنانے چاہئیں۔”

ازبکستان کے شہر تاشقند میں اکیڈمی آف سائنسز کے حیاتیاتی کیمسٹری کی نامیاتی شاخ کی ڈپٹی ڈائریکٹر، شاہالو توردیکولووا کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ اور والد دونوں ریاضی دان تھے۔ انہوں نے بہترین سرپرستی کے ساتھ ساتھ میری مدد بھی کی۔ وہ کہتی ہیں، ” آج سائنس دانوں کے سرحدوں کے آر پار رابطے ایک معمول بن چکے ہیں۔ اب پوری دنیا میں کوئی بھی آپ کا سرپرست ہو سکتا ہے۔”
نائب وزیر خارجہ جان سلیون نے ان خواتین پر زور دیا کہ وہ واپس جا کر لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو اپنے تجربات سے آگاہ کریں جنہوں نے شاید کبھی یہ تصور بھی نہ کیا ہو کہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں بھی ان کے لیے جگہ ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا، “آپ میں ہر ایک اس امر کا زندہ ثبوت ہے کہ خواتین کے لیے ان شعبوں میں جگہ موجود ہے۔”
حقیقی ‘ ہڈن فگرز‘ کے بارے میں مزید جانیے۔