سٹینفورڈ کے انجنیئروں نے ایک ایسا کپڑا تیار کیا ہے جو دنیا کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت سے مطابقت پیدا کرنے میں لوگوں کی مدد کرسکتا ہے — یعنی ایک ایسا کپڑا جس میں سے نہ صرف پسینہ نکل جاتا ہے بلکہ جلد کو بھی ٹھنڈا رکھتا ہے۔
ان سائنس دانوں کے مطابق، جنہوں نے اس دریافت کی رپورٹ ” سائنس” نامی جریدے میں شائع کی ہے، پلاسٹک کی اساس پر تیار کیے گئے دھاگے سے ایک ایسے لباس کے لیے کپڑا بُنا جاسکتا ہے جو موجودہ وقت میں دستیاب قدرتی یا مصنوعی ریشوں سے بنائے ہوئے کپڑے سے تیار کیے جانے والے ملبوسات کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے جسم کو ٹھنڈا رکھ سکے گا۔
سائنس دانوں کی ٹیم کے قائد، سٹینفورڈ یونیورسٹی میں مادوں کی سائنس اور انجنیئرنگ کے پروفیسر، ای چوئی کہتے ہیں کہ ان عمارتوں کو ٹھنڈا رکھنے کی بجائے جہاں لوگ رہتے ہیں یا کام کرتے ہیں، آپ لوگوں کو ٹھنڈا رکھتے ہوئے بجلی پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی لا سکتے ہیں۔
اس نئے کپڑے سے تیار کیے گئے لباس میں آدمی، کاٹن کے روایتی کپڑوں کے مقابلے میں خود کو تقریباً 2 سینٹی گریڈ تک زیادہ ٹھنڈا محسوس کرتا ہے۔ کاٹن کے روایتی کپڑوں کی مانند، اس کپڑے میں سے بھی پسینہ بھاپ بن کر باہر نکل سکتا ہے۔ لیکن اس کپڑے میں سے جسم کی حرارت بھی ( انفرا ریڈ شعاعوں کی صورت میں ) باہر نکل جاتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ اس نئی قسم کے کپڑے سے تیار کردہ لباس میں ملبوس شخص کو گرمی کے باوجود پنکھا یا ایئر کنڈیشن چلانے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔
کیا آپ یہ لباس پہننے کے لیے تیار ہیں؟
شان ہوئی فان، سٹینفورڈ میں الیکٹریکل انجنیئرنگ کے پروفیسر ہیں۔ وہ فوٹونکس یعنی مرئی اور غیر مرئی روشنی کے مطالعے کے شعبے کے ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے جسم کی تقریباً نصف حرارت انفرا ریڈ شعاعوں کی صورت میں خارج ہوتی ہے۔ تاہم اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پارچہ بافی کی ڈیزائننگ میں کوئی خاص تحقیق نہیں کی گئی۔
فان نے ایک پریس ریلیز میں بتایا، ’’آپ خواہ کوئی بھی لباس پہنیں وہ کچھ نہ کچھ حرارت اپنے اندر ضرور قید کرلیتا ہے‘‘ اور اس طرح جلد گرم ہوجاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر مسئلہ صرف جسم سے انفرا ریڈ شعاعوں کی شکل میں نکلنے والی حرارت سے نجات پانے کا ہو تو پھراس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کچھ نہ پہنا جائے۔‘‘ مگر اس میں حیا آڑے آتی ہے۔ لہذا ایک ایسے کپڑے کی تیاری جو بلند درجۂ حرارت کے ماحول میں ہمارے جسم کو ٹھنڈا رکھ سکے، حقیقی کامیابی ہو سکتی ہے۔
سٹینفورڈ کے سائنس دان اپنے آئندہ تجربات میں زیادہ مختلف رنگوں اور دیکھنے میں روایتی کپڑوں کی خصوصیات کا حامل ایک ایسا کپڑا بنانے کی کوشش کریں گے، جسے تجارتی پیمانے پر بھاری مقدار میں تیار جاسکے۔