امریکی خواتین سائنس دان پہاڑوں کی چوٹیوں سے لے کر سمندروں کی گہرائیوں تک پھیلے عالمگیر مسائل سے نمٹ رہی ہیں۔
مخففاً سٹیم کہلانے والے سائنس، ٹکنالوجی اور ریاضی کے شعبوں میں ماضی میں بہت کم عورتیں ملازمتیں کیا کرتی تھیں۔ مگر آج تقریباً ہر دس میں سے تین ملازمتیں، عورتوں کے پاس ہیں۔
اقوام متحدہ نے 11 فروری کو سائنس میں عورتوں اور لڑکیوں کا بین الاقوامی دن مقرر کیا ہے۔ “لیڈا ہل فلینتھروپیز” (لیڈا ہل کا انسانیت کی فلاح کا ادارہ) اور سائنس کے فروغ کی امریکی ایسوسی ایشن کی جانب سے شروع کیے جانے والے آئی ایف (اِف)/ٹی ایچ ای این (دن) نامی پروگراموں کی وجہ سے، 125 خواتین ایسی لڑکیوں کی سرپرستی کر رہی ہیں جو مستقبل میں اپنی اِن سرپرست خواتین کے ساتھ سائنسی لیڈروں کی حیثیت سے شامل ہو جائیں گیں۔ شیئر امیریکا نے اِن میں سے سائنس کی چار “سفیروں” سے بات کی۔
کمبرلی مائنر، آب و ہوا کی سائنس دان

ماحولیات کی سائنس دان اور پروفیسر کمبرلی مائنر نے لڑکیوں کو راز کی ایک بات بتائی۔ “آپ کو سائنس دان بننے کے لیے طبعاً سائنس یا ریاضی میں قابل ہونے کی ضرورت نہیں۔ لاس اینجلیس کے علاقے میں ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری میں کام کرنے والی، مائنر کہتی ہیں، “کڑی محنت، لگن اور استقامت کے ساتھ، آپ سٹیم میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔”
مائنر انٹارٹکا کے گرد بحری جہاز میں چکر لگا چکی ہیں، الاسکا میں شمالی روشنیوں کا بغور مشاہدہ کر چکی ہیں، اور ماؤنٹ ایورسٹ پر آلودگی کا ریکارڈ مرتب کرنے والی ایک ٹیم کی سربراہی کر چکی ہیں۔ انہیں سیر و سیاحت کا بہت شوق ہے اور وہ جن مقامات کو دیکھنے جاتی ہیں وہ اُنہیں محفوظ کر لیتی ہیں۔
مائنر نے کہا، “ہمارے ارد گرد کی دنیا سائنسی اصولوں کے گرد گھومتی ہے۔ یہ جاننا کسی سلطنت کی کنجی کی مانند ہے کہ دنیا کیسے کام کرتی ہے اور کیوں کام کرتی ہے۔ آپ اپنی زندگی میں جو کچحھ بننا چاہتے ہیں، اس سے آپ وہ بن سکتے ہیں۔” فطری دنیا کی کنجیاں تلاش کرنے میں مدد کرنے کے لیے وہ مختلف سکول گروپوں، ورچوئل کلاس روموں اور امریکی گرلز سکاؤٹوں کے ساتھ کام کر چکی ہیں۔
لاٹیشیا جونز، سائنس دان اور اخلاق دوست

لاٹیشیا جونز کو خلیات میں جنون کی حد تک دلچسپی ہے۔ انہوں نے بائیو میڈیکل (حیاتیاتی طب) میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ جب وہ خلیے کی تقسیم، ذیا بیطس اور دماغ کی نشو و نما کو سمجھنے کی کوشش میں تجربات کر رہی ہوتی ہیں تو انہیں اپنی خورد بین کے نیچے رنگ برنگے خلیوں کا نقشہ بہت اچھا لگتا ہے۔ وہ واشنگتٹن میں مائکروبیالوجی کی امریکی سوسائٹی میں سائنس دان کے طور پر کام کرتی ہیں۔
انہوں نے واشنگٹن میں بچوں کے قومی ہسپتال میں مریضوں کو پڑھانے کے لیے “ینگ سائنٹسٹ وینس ڈے” کے نام سے ایک پروگرام کا آغاز بھی کیا۔ وہ لڑکیوں کو یاد دہانی کراتی ہیں کہ عورتیں بہت طاقت ور ہوتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “ہم نہ صرف ذہین ہیں، محنت سے کام کرتی ہیں اور بڑے پیمانے پر معاشرے میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں بلکہ ہم ہر صورت حال کے جذباتی پہلوؤں کو سنبھالنے اور صورت حال کو متوازن بنانے کی اہلیت بھی رکھتی ہیں۔”
ایک سیاہ فام عورت کی حیثیت سے، جونز کو سٹیم کے شعبوں میں عورتوں اور اقلیتوں کے شامل ہونے کی اہمیت کا ادراک ہے۔ وہ کہتی ہیں، “سٹیم صرف اسی وقت ترقی کرتا ہے جب مختلف پسہائے منظر، ثقافتوں، نسلی گروہوں، صنفوں اور شناختوں کے حامل لوگ مل کر دنیا کے سب سے زیادہ پراسرار امور پر کام کرتے ہیں۔”
ایرن سمتھ، یونیورسٹی کی طالبہ

جب ایرن سمتھ لڑکپن میں اپنے باورچی خانے میں کیے جانے والے تجربات کی بات کرتی ہیں تو وہ قدیم تاریخ کے بارے میں بات نہیں کر رہی ہوتیں۔ سمتھ کی عمر21 برس ہے اور وہ سٹینفورڈ یونیورسٹی کی سال 2023 کی کلاس کی طالبہ ہیں۔ مگر کوئی بڑا کام کرنے کے لیے وہ ڈگری کا انتظار نہیں کر رہیں۔
جب وہ ہائی سکول میں تھیں تو انہوں نے مڈل سکول کی طالبات کو کوڈنگ سکھانے کے لیے کسی اور کے ساتھ مل کر “سٹیمنسٹ” کے نام سے ایک گروپ بنایا۔
وہ ٹکنالوجی میں اپنی مہارت کو انسانی دماغ پر مرکوز کرتے ہوئے پارکنسن کی بیماری کا پتہ چلانے اور اس پر نظر رکھنے کے طریقوں کی تلاش میں ہیں۔ وہ فیس پرنٹ کے نام سے ایک اپلیکیشن تیار کر رہی ہیں جس میں چہرے کے تاثرات کے ایسے نقائص یا رویوں کی اُن علامات کا ویڈیو کے استعمال کے ذریعے پتہ چلایا جا سکے گا جن کا تعلق پارکنسن کی بیماری کے ابتدائی مراحل سے ہوتا ہے۔ فیس پرنٹ سٹینفورڈ میڈیکل سکول اور مائیکل جے فوکس فاؤنڈیشن میں تجرباتی مراحل سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے کہا، “میں ایسے مستقبل کی تعمیر کی امید کرتی ہوں جس میں دماغی صحت (ایک ایسا) مقصد ہو جو ذاتی ضرورتیں پوری کرتا ہو اور (اس بیماری) کی روک تھام کرتا ہو۔”
سمتھ کوامید ہے کہ لڑکیاں اور عورتیں اپنے آپ میں سٹیم کے شعبے سے تعلق رکھنے کا زیادہ گہرا احساس پیدا کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا اس کا مقصد”اپنے نظریات اور کام میں دوسروں کو شامل کرنا ہے۔”
کیٹی کروف بیل، گہرے سمندروں کی محقق

کیٹی کروف بیل نے جب “ناٹیلس ایکسپلوریشن پروگرام” کی قیادت سنبھالی تو انہوں نے بحریات یعنی سمندری علوم کا چہرہ بدل کر رکھ دیا۔ اس پروگرام میں سمندروں کی تہہ میں تحقیق کی جاتی ہے اور اس کے شاندار مناظر براہ راست دنیا کو دکھائے جاتے ہیں۔ جب انہوں نے اس پروگرام کی قیادت سنبھالی تو اُس وقت سائنس اور اس کی سمندروں میں کام کرنے والی ٹیموں میں عورتوں کی تعداد 17 فیصد تھی۔ جب 18 برس بعد انہوں نے اس پروگرام کو چھوڑا تو اُس وقت عورتوں کی نمائندگی 43 فیصد ہو چکی تھی۔
انہوں نے کہا جب سمندری تحقیق تمام ذہین افراد کی رسائی میں آ جاتی ہے تو یہ “ہمیں اس کے استعمال، انتظام کاری اور سمندروں کے تحفظ کے بارے میں دانا بناتی ہے جس کے نتیجے میں بنی نوع انسان ترقی کرنے لگتی ہے۔”
بیل سان ڈی ایگو میں بڑی ہوئیں۔ انہیں پانی بہت پسند ہے۔ انہوں نے سمندری انجنیئرنگ، سمندری آثار قدیمہ اور بحری ارضیات میں تعلیم حاصل کی۔ آج کل وہ میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کی میڈیا لیب کے “کھلے سمندروں کے پروگرام” کی سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی ایک رکن بھی ہیں۔
انہوں نے بتایا، “بچپن میں سب سے پہلے ہم جو سوالات پوچھتے ہیں اُن میں سے ایک ہے ‘کیوں؟’ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دنیا کو سمجھنا چاہتے ہیں جیسے کہ ‘آسمان نیلا کیوں ہے؟’ یہی وہ ‘کیوں’؟ ہے جو سائنس کو آگے بڑھاتا ہے کیونکہ ہم [گو کہ] گہری سطح پر، بڑے ہو کر بھی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور [یہ کہ] ہم دنیا کو ایک بہتر جگہ کیسے بنا سکتے ہیں۔”