سابقہ امریکی راہنماؤں کے انسان دوست پہلوؤں کی عکاس: صدارتی لائبریریاں

امریکی صدارتی لائبریریاں اور عجائب گھر امریکہ کے سابق راہنماؤں کی شخصیات کی بصیرتوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

اسی وجہ سے علمی ماہرین اور طلبا کا اِن مقامات پر جمگھٹا لگا رہتا ہے۔ 1941ء میں صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ کے اعزاز میں قائم کی جانے والی پہلی  صدارتی لائبریری کے افتتاح سے لے کر آج تک، ان لائبریریوں کا انتظام “نیشنل آرکائیوز” (قومی دستاویزات) کے ادارے کے پاس ہے۔

 دو تصویریں: صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ لوگوں میں گھرے کیک کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں؛ روز ویلٹ اور باقی لوگ گرم پانی کا ابلتا ہوا چشمہ دیکھ رہے ہیں (Courtesy of Franklin D. Roosevelt Presidential Library & Museum)
بائیں تصویر: صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ (درمیان میں) 1934ء میں اپنی سالگرہ مناتے ہوئے اور اُن کے دائیں کندھے کے قریب اوپر کھڑی اُن کی اہلیہ، ایلینور۔ دائیں تصویر: روز ویلٹ ریاست وائیومنگ کے ییلو سٹون پارک کے “اولڈ فیتھ فل” نامی گرم پانی کا ابلتا ہوا چشمہ دیکھ رہے ہیں۔ (Courtesy of Franklin D. Roosevelt Presidential Library & Museum)

سابقہ صدور کی آبائی ریاستوں میں موجود عمارتوں پر مشتمل یہ کمپلیکس، صدر ہربرٹ ہُوور سے لے کر جارج ڈبلیو بش تک کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ (صدر بارک اوباما کے نام کمپلیکس شکاگو میں زیر تعمیر ہے جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کمپلیکس کی تعمیر شروع نہیں ہوئی۔) ہر کمپلیکس آنے والوں کو اُن واقعات کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے جن سے امریکہ اور دنیا کی صورت گری ہوئی۔

مقبول خصوصیات

ایلن پرائس بوسٹن میں قائم جان ایف کینیڈی صدارتی لائبریری اور عجائب گھر کے ڈائریکٹر ہیں۔ پرائس بتاتے ہیں کہ اس لائبریری کو دیکھنے کے لیے آنے والے لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ کینیڈی ( 1961 تا 1963) کس طرح ٹیلی ویژن پر ایڈیٹنگ کے بغیر، براہ راست اخباری کانفرنسوں کے ذریعے عوام سے مخاطب ہوا کرتے تھے۔

پرائس نے بتایا کہ “عوام اُن کی اخباری کانفرنسیں بہت شوق سے دیکھا کرتے تھے۔”یہ کانفرنسیں اوسطاً ہر 16 دنوں کے بعد ہوا کرتی تھیں اور ناظرین کی اوسط تعداد 18 ملین ہوا کرتی تھی۔ یہاں آنے والے لوگ لائبریری میں موجود مکالمات کے تبادلوں کے وہ کلپس دیکھ سکتے ہیں جن میں کینیڈی کی حاضر جوابی، نامہ نگاروں کے ساتھ اُن کے ہنسی مزاق میں جان ڈال دیتی تھی۔

آسٹن میں صدر لنڈن بی جانسن ( 1963 تا 1969) کی لائبریری اور عجائب گھر اُن کی ایک مقبول ترین یاد گار ہے۔  اس کے ڈائریکٹر، مارک لارنس نے کہا کہ “بلا شبہ یہ اوول آفس کی ہماری تخلیق نو ہے۔” دیکھنے والے 1960ء کی دہائی میں جگہ کے استعمال اور پرانے ٹیلی فونوں اور ٹیلی ویژنوں اور ہر جگہ پائی جانے والے راکھ دانوں کے بارے میں تبصرے کرتے ہیں۔

 کرسیوں پر بیٹھے دو آدمی آپس میں باتیں کر رہے ہیں (Yoichi Okamoto/LBJ Library)
مارٹنن لوتھر کنگ جونیئر صدر لنڈن بی جانسن سے باتیں کر رہے ہیں۔ (Yoichi Okamoto/LBJ Library)

لائبریری میں آنے والے لوگ جانسن کی فون پر کی جانے والی گفتگوئیں بھی سن سکتے ہیں جن سے ان کے نسبتاً بے تکلف، اور غیرمحتاط لمحات کا احاطہ بھی ہوتا ہے۔ اِن میں سے ایک 1965 کے اوائل میں کی جانے والی یادگار گفتگو ہے جو انہوں نے اُس حکمت عملی کے بارے میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے ساتھ کی جس کے نتیجے میں اسی سال مارچ میں ووٹ دینے کے حقوق کا قانون منظور ہوا۔

جوانمرد لوگوں کی جھلکیاں

ابیلین، کینسس میں صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور (1953 تا 1961) کی صدارتی لائبریری میں “ناکامی کی صورت میں” کے عنوان سے اُن کے پیغام کو نمایاں کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ پیغام اُس وقت تحریر کیا تھا جب وہ دوسری عالمی جنگ کے دوران یورپ میں اتحادی افواج کے سپریم کمانڈر تھے۔

لائبریری کے ڈائریکٹر، ڈان ہیمٹ نے بتایا کہ تب کے جنرل آئزن ہاور کے نارمنڈی حملے کے موقعے پر ہاتھ سے لکھے گئے اس پیغام میں انہوں نے حملے کی ناکامی کی صورت میں ذمہ داری قبول کرنے کا اظہار کیا تھا۔  انہوں نے اس پیغام کا اختتام یہ کہتے ہوئے کیا، ‘بری فوج، فضائیہ، اور بحریہ نے فرض نبھانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو بھرپور دلیری اور لگن کے ساتھ  وہ کر سکتی تھیں۔ اس کوشش کے ساتھ کسی قصور یا غلطی کا اگر کوئی تعلق بنتا ہے تو تنہا میں (اس کا ذمہ دار) ہوں۔'”

ڈائریکٹر ڈیوک بلیک وڈ کے مطابق، سیمی ویلی، کیلی فورنیا میں واقع رونالڈ ریگن کی صدارتی لائبریری اور عجائب گھر میں دو ایسی تحریریں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں جو ریگن (1981 تا 1989) کی شخصیت کا “جوہر” ظاہر کرتی ہیں۔

 طیارے میں بیٹھا ایک آدمی اپنے اردگرد موجود لوگوں سے باتیں کر رہا ہے (Courtesy Ronald Reagan Library)
صدر رونالڈ ریگن صدارتی طیارے “ایئرفورس ون” میں نامہ نگاروں سے باتیں کر رہے ہیں۔ (Courtesy Ronald Reagan Library)

اِن میں سے ایک اُن کی ڈائری میں درج ہے جس کا تعلق اُن کے قتل کی ایک ناکام کوشش میں اُن کے زندہ بچ نکلنے سے ہے۔  (انہوں نے طنزیہ انداز سے لکھا، “گولی لگنے سے تکلیف ہوتی ہے۔”) اگرچہ انہوں نے مانا کہ شروع میں انہیں “اس نوجوان نفسیاتی مریض سے نفرت تھی،” جس نے انہیں گولی ماری تھی، تاہم بعد میں انہوں نے بائبل کے گم ہو جانے والی بھیڑ سے متعلق الفاظ یاد کیے اور اپنے حملہ آور کو معاف کر دیا۔

 جنگل میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے پیدل چلتے ہوئے ایک مرد اور ایک عورت (Courtesy Ronald Reagan Library)
صدر رونالڈ ریگن اور نینسی ریگن میری لینڈ میں واقع کیمپ ڈیوڈ میں چہل قدمی کر رہے ہیں۔ (Courtesy Ronald Reagan Library)

دوسری تحریر امریکی عوام کے نام ریگن کا ہاتھ سے لکھا ہوا ایک خط ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ انہیں الزائمر کا مرض لاحق ہوگیا ہے۔ اس مرض کی تشخیص اُن کے  صدر کے عہدے سے سبکدوشی کے چار برس بعد ہوئی۔ بلیک وڈ نے بتایا کہ یہ خط اس معذور کر دینے والی بیماری کے بارے میں اہم آگاہی پیدا کرنے کا سبب بنا اور اس سے ریگن کے اس بیماری کا پرعزم طریقے سے سامنا کرنا بھی ظاہر ہوتا ہے۔