امریکہ کے ایک اعلٰی ترین جنرل اور وزیر خارجہ، کولن پاول 18 اکتوبر کو کووڈ-19 سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 84 برس تھی اور وہ تارکین وطن کی اولاد تھے۔
محنتی اور رجائیت پسند پاول اس صدی کے اوائل میں امریکی سفارت کاری کی رہنمائی میں مدد کرنے سے پہلے، امریکی فوج کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے۔ اس دوران انہوں نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں سمیت چار امریکی صدور کے مشیر اعلٰی کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔
20 جنوری 2001 کو پاول کی 65 ویں امریکی وزیر خارجہ کے طور پر نامزدگی کی متفقہ طور پر توثیق کی گئی۔ وہ ملک کے اعلیٰ سفارت کار کے طور پر خدمات انجام دینے والے پہلے افریقی نژادامریکی تھے اور 26 جنوری 2005 تک اس عہدے پر فائز رہے۔
18 اکتوبر کو صدر بائیڈن نے کہا، “کولن جنگجو اور سفارت کار، دونوں حیثیتوں میں اعلیٰ ترین آدرشوں کے مجسم تھے۔ جنگوں میں لڑنے کے بعد، وہ کسی بھی دوسرے شخص کے مقابلے میں [اس نقطے کو] سب سے بہتر سمجھتے تھے کہ ہمارے امن اور خوشحالی کو برقرار رکھنے کے لیے اکیلی فوج ہی کافی نہیں ہوسکتی۔”
محکمہ خارجہ سے تقریر کرتے ہوئے بلنکن نے کہا، “وہ اس بات پر پکا یقین رکھتے تھے کہ امریکی قوم ایک غیرمعمولی قوم ہے اور یہ کہ ہمیں اعتماد اور عاجزی کے ساتھ راہنمائی کرنا چاہیے اور دنیا اس وقت زیادہ محفوظ ہوتی ہے جب امریکہ سرگرم عمل ہوتا ہے اور جب اس کے اتحادی اور شراکت دار متحد ہوتے ہیں۔”
پاول دوسروں کی مدد کرنے کے لیے بھی تیار رہتے تھے۔ وہ “امیریکاز پرومز الائنس” نامی تنظیم کے بانی چیئرمین تھے۔ اس تنظیم کے ذریعے انہوں نے اور ان کی اہلیہ ایلما نے ایسے نوجوانوں کو اپنے آپ میں صلاحیتیں پیدا کرنے میں مدد کی جنہیں خطرات کا سامنا تھا۔
پاول کے اہلخانہ نے 18 اکتوبر کو کہا، “ہم نے ایک شاندار اور محبت کرنے والا شوہر، والد اور دادا، نانا اور ایک عظیم امریکی کھو دیا ہے۔”
فوجی خدمات
وہ 5 اپریل 1937 کو نیو یارک کے ہارلیم کے علاقے میں پیدا ہوئے۔ جمیکا سے ترک وطن کرکے آنے والے والدین کے بیٹے، پاول نے اپنے فوجی کیریئر کا آغاز نیو یارک کے سٹی کالج سے ریزرو آفیسرز ٹریننگ کور میں شامل ہو کر کیا۔
پاول نے ویت نام میں بطور سپاہی خدمات انجام دیں اور انہیں خود زخمی ہونے کے باوجود جلتے ہوئے ہیلی کاپٹر سے ساتھی مسافروں کو بچانے پر “پرپل ہارٹ” اور “سولجر میڈل” نامی تمغے دیئے گئے۔ اپنی 35 سالہ فوجی زندگی کے دوران، پاول جنوبی کوریا اور جرمنی میں بھی تعینات رہے اور انہوں نے فوجی اور انسانی مشنوں کی نگرانی کی۔
انہیں 1989 میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اس سب سے بڑے فوجی عہدے پر صدر جارج ایچ ڈبلیو اور صدر بل کلنٹن کے ماتحت کام کیا۔ اس عہدے پر کام کرتے ہوئے انہوں نے سرد جنگ کے خاتمے تک امریکی فوج کی راہنمائی کرنے کے ساتھ ساتھ بحرانوں سے نمٹنے کے لیے انسانی امداد کی سرگرمیوں میں بھی راہنمائی کی۔ اس دوران انہوں نے صومالیہ میں قحط کے متاثرین کی مدد کی اور بلقان میں جنگ کا خاتمہ کرنے کے لیے اقوام کے ساتھ مل کر کام کیا۔

اُن کے “پاول نظریے” کے تحت محتاط طریقے سے وہ معیار مقرر کیے گئے تھے جن کے تحت یہ واضح کیا گیا تھا کہ امریکہ کو کس طرح فوجی طاقت استعمال کرنا چاہیے۔
1990 میں عراقی آمر صدام حسین کے کویت پر حملے کے بعد، پاول نے بین الاقوامی قانون کی سربلندی برقرار رکھنے کے لیے کثیر الملکی اتحاد تشکیل دینے میں مدد کی۔
سفارت کاری کو مضبوط بنانا
1993 میں فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد پاول نے ہیٹی میں فوجی آمریت سے جمہوریت کی طرف منتقلی میں سابق صدر جمی کارٹر کے ساتھ تین افراد پر مشتمل ایک وفد کے ایک رکن کے طور پر بھی کام کیا۔
وزیر خارجہ کے طور پر پاول نے روس اور چین کے ساتھ امریکی تعلقات کو بہتر بنایا۔ انہوں نے دنیا بھر یں ایچ آئی وی/ایڈز اور ملیریا کو ختم کرنے کے لیے امریکی کاوشوں میں مدد بھی کی۔
عوامی خدمت کے ان کے کام کی وجہ سے انہیں دو بار”پریزیڈنشل میڈل آف فریڈم” [آزدی کا صدارتی تمغہ] دیا گیا۔

پاول اپنی کامیابی کو امریکہ کے وعدے کا ایک اور ثبوت قرار دیتے تھے۔ وزیر خارجہ کے طور پر نامزدگی کی توثیق کے عمل کے دوران انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں کہا، “میرا خیال ہے کہ یہ دنیا پر ثابت کرتا ہے کہ اس ملک میں کیا کچھ ممکن ہے۔”
بلنکن نے کہا کہ پاول کے ورثے کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے دوسروں کی کس طرح اُن کے اِس یقین میں شامل ہونے کے لیے ہمت افزائی کی۔
بلنکن نے کہا، “کولن پاول نے اپنی غیرمعمولی زندگی عوامی خدمت کے لیے وقف کر دی کیونکہ انہوں نے امریکہ پر یقین کرنا کبھی نہیں چھوڑا۔ اور ہم بھی امریکہ پر کم و بیش اتنا ہی یقین رکھتے ہیں کیونکہ اس یقین نے کولن پاول جیسا شخص پیدا کیا۔”