ڈیسمنڈ ٹوٹو مسکرا رہے ہیں۔ (© Mike Hutchings/Reuters)
ڈیسمنڈ ٹوٹو 25 اپریل 2006 کو کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ میں اپنے دفتر میں ایک انٹرویو کے دوران مسکرا رہے ہیں۔ (© Mike Hutchings/Reuters)

امریکیوں کا شمار بھی دنیا بھر کے اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو ڈیسمنڈ ٹوٹو کے انتقال کا سوگ منا رہے ہیں۔ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خاتمے میں مدد کی اور دنیا بھر میں انسانی حقوق اور مساوات کی پرزور حمایت کی۔ ٹوٹو کا 90 برس کی عمر میں 26 دسمبر کو انتقال ہوا۔

ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے ٹوٹو  اینگلیکن چرچ میں ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے چرچ کے اعلی ترین عہدے پر پہنچے اور جنوبی افریقہ کے نسلی بنیادوں پر استوار علیحدگی کے نظام کو چیلنج کیا۔ اپنے ملک کی جمہوریت کی جانب منتقلی میں خدمات انجام دینے کے بعد ٹوٹو نے  نسل پرستی کے مظالم کی تفصیلات مرتب کیں اور معافی اور مصالحت کو فروغ دینے والے جنوبی افریقہ کے سچائی اور مصالحت کے کمشن کے سربراہ کے طور پر کام کیا۔

صدر بائیڈن نے ٹوٹو کی آج کی نسل پرستی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں سچائی، مساوات اور مصالحت کے ساتھ عزم کی ایک متاثر کن جذبے کے طور پر تعریف کی۔

صدر بائیڈن اور خاتون اول جِل بائیڈن نے 26 دسمبر کو ایک بیان میں کہا، “ڈیسمنڈ ٹوٹو نے ایک بہتر، زیادہ آزاد اور زیادہ مساوی دنیا قائم کرنے کے لیے اپنی روحانی حیثیت کو استعمال کیا۔ اُن کا ورثہ سرحدوں سے آزاد ہے اور اس کی گونچ آنے والے زمانوں میں بھی سنائی دے گی۔”

جمہوریت اور انسانی حقوق کے انتھک حامی ٹوٹو ایک پرعزم، ہمدرد اور امید پرست انسان تھے۔ انہوں نے اس بات کا پرچار کیا کہ معافی بھول جانے کا نام نہیں بلکہ ایک اور موقع دینے کا نام ہے۔

 صدر اوباما ٹوٹو کو آزادی کا صدارتی تمغہ پہنا رہے ہیں۔ (© Jewel Samad/AFP/Getty Images)
تب کے امریکی صدر بارک اوباما 12 اگست 2009 کو وائٹ ہاؤس میں ٹوٹو کو آزادی کا صدارتی تمغہ پہنا رہے ہیں۔ (© Jewel Samad/AFP/Getty Images)

نسل پرستی کو ختم کرنے کی ٹوٹو کی کوششوں کے اعتراف کے طور پر انہیں سال 1984 کا امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔  2009 میں تب کے صدر بارک اوباما نے انہیں امریکہ کا اعلی ترین سویلین ایوارڈ، پریذینشل میڈل آف فریڈم [آزادی کا صدارتی تمغہ] دیا۔

امریکی حکام اور عوامی لیڈروں نے مندرجہ ذیل الفاظ میں ٹوٹو کے لازوال ورثے کو بیان کیا:

“انہوں نے نہ صرف جنوبی افریقہ میں لوگوں کو بلکہ دنیا بھر میں ازادی اور انصاف کے لیے جدوجہد کرنے والے لاکھوں لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا حوصلہ دیا” — نائب صدر ہیرس

 ایک آدمی ایک ماتم کناں عورت کو حوصلہ دے رہا ہے۔ (© Shiraaz Mohamed/AP Images)
27 دسمبر کو جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ کے سویٹو کے علاقے میں اینگلیکن آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو کے تاریخی گھر کے باہر ایک سوگوار خاتون۔ (© Shiraaz Mohamed/AP Images)

“آرچ بشپ ٹوٹو کی ہمدرد، اخلاقی، روشن خیال، اور ناانصافی اور جبر کے خلاف ڈٹ جانے والی جدوجہد نے ان کے ملک کو نسل پرستی کے اندھیروں سے نکالنے میں مدد کرنے کے ساتھ ساتھ  دنیا بھر کے لوگوں میں حق کے لیے کھڑے ہونے کا جوش و جذبہ پیدا کرنے میں بھی مدد کی۔ اُن کی آواز زمانوں تک سنائی دیتی رہی گی اور  پوری انسانیت کے لیے ایک تحفے کے طور پر گونجتی رہے گی۔” — وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن

“آرچ بشپ ٹوٹو نے اس بات کا پرچار کیا کہ نسل پرستی کی پالیسی ظالموں کے لیے اتنی ہی انسانیت سوز تھی جتنی کہ مظلوموں کے لیے انسانیت سوز تھی۔” – نیویارک ٹائمز

“مصائب کے گرداب میں گھری سرزمین پر ایک اخلاقی نشان اور جامنی رنگ کی مذہبی پوشاک پہنے شریر سا پادری، کئی دہائیوں تک ایک ایسی قوم میں جرات، وقار اور امید کی ایک متاثر کن علامت کے طور پر کھڑا رہا جس کا مقدر کبھی کبھار خانہ جنگی کا شکار ہوتا دکھائی دیتا تھا۔ اس کے مزاح کے ناقابل تسخیر احساس کے ساتھ  امن اور نسلی انصاف کے لیے اس کی پرجوش التجائیں تباہی کے دہانے پر کھڑے ملک کے لیے ایک مستقل مرہم کا کام کرتی رہیں۔”  — لاس اینجلیس ٹائمز

“آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے اپنی اقدار، ہمدردی اور امید پرستی کے بل بوتے پر قیادت کی۔” —  مائیکروسافٹ کے شریک بانی، بل گیٹس۔

“آرچ بشپ ٹوٹو ایک ایسی آفاقی روح تھے جس کی جڑیں اپنے ملک میں آزادی اور انصاف کی جدوجہد میں پیوست ہونے کے ساتھ ساتھ  [دنیا میں کسی بھی] جگہ ہونے والی ناانصافی پر پریشان ہو جایا کرتی تھی۔” – سابق صدر بارک اوباما

 ڈیسمنڈ ٹوٹو کی تصویر کے قریب ایک عورت پھولوں کا گلدستہ رکھ رہی ہے۔ (© AP Images)
جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں 27 دسمبر کو سینٹ جارج کیتھیڈرل کے باہر ٹوٹو کی تصویر کے اردگرد پھولوں کے گلدستے رکھے ہوئے ہیں۔ (© AP Images)