
امریکہ کا چوٹی کا سفارت کار ہونے کی حیثیت سے وزیر خارجہ مائیک پومپیو اپنا بہت سا وقت دنیا بھر میں سفر کرنے میں صرف کرتے ہیں جس کے دوران وہ مسائل کے حل نکالنے کے لیے اپنے بین الاقوامی ہم منصبوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور امریکہ کے اتحادیوں کے ساتھ شراکتوں کو مضبوط بناتے ہیں۔
اس برس پومپیو نے 50 ممالک کا دورہ کیا جس کے دوران وہ سربراہانِ مملکت اور مختلف پسہائے منظر کے حامل لوگوں سے ملے۔ ان دوروں کے دوران انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تمام حکومتوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے عوام کے مفادات کا تحفظ کریں۔ انہوں نے کہا، “ہر ملک کو … دیانت دارانہ طور پر اپنے عوام کی ان ذمہ داریوں کو بہر صورت تسلیم کرنا چاہیے اور یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ کیا موجودہ بین الاقوامی نظام اتنے ہی عمدہ طریقے سے لوگوں کی بہتری کے لیے کام کر رہا ہے جتنا کہ یہ کر سکتا ہے۔ اور اگر ایسا نہیں کر رہا تو پھر ہم اس کو درست کیسے کر سکتے ہیں۔”
ذیل میں کسی ترجیحی انتخاب کے بغیر وزیر خارجہ کے سال 2019 کے دوران سفروں کی چند ایک جھلکیاں پیش کی جا رہی ہیں:

پومپیو نے اپریل میں چلی، پیراگوئے، پیرو اور کولمبیا کے اپنے دورے کے دوران انسانی حقوق، اقتصادی ترقی اور سلامتی، اور وینیز ویلا میں جمہوریت اور وینیز ویلا کے پناہ گزینون کی ضروریات کے ساتھ مشترکہ عزم کو اجاگر کیا۔ اوپر تصویر میں پومپیو (دائیں) کولمبیا کے صدر آئیوان ڈوکے مارکیز سے 14 اپریل کو کولمبیا کے شہر ککوتا میں ایک گودام کے سامنے جس میں وینیز ویلا کے شہروں کے لیے امدادی سامان رکھا گیا ہے ہاتھ ملا رہے ہیں۔

وزیر خارجہ نے نومبر میں اہم دوطرفہ تعلقات کی اہمیت اجاگر کرنے، جرمن چانسلر اینگلا میرکل سمیت اہم لیڈروں سے ملاقات کرنے اور دیوارِ برلن کے گرنے کی یاد منانے کے لیے جرمنی کا دورہ کیا۔ یہاں تصویر میں پومپیو 7 نومبر کو گرانفین وہر، جرمنی میں ایک فوجی مشق میں کی جانے والی حقیقی گولہ باری کے دران امریکی فوج کے جوانوں سے باتیں کر رہے ہیں۔

7 نومبر کو پومپیو جرمنی میں امریکہ کے سفیر رچرڈ گرینیل (انتہائی دائیں جانب) اور ریگن فاؤنڈیشن کے فریڈ ریان جونیئر (بائیں) کے ہمراہ برلن میں امریکی سفارت خانے میں سابق صدر رونالڈ ریگن کے مجسمے کی نقاب کشائی کر رہے ہیں۔
1987ء میں دیوارِ برلن کے قریب برانڈن برگ گیٹ پر سوویت یونین کے سیکرٹری جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریگن نے مشہور زمانہ یہ جملے کہے، ” مسٹر گورباچوف، اس گیٹ کو کھولیں … اس دیوار کو اکھاڑ پھینکیں!” ریگن کے اس چیلنج نے ماسکو پر کھلے پن اور اصلاحات کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے دباؤ میں اضافہ کیا۔

برسلز کی اکتوبر کی ایک رات کے آسمانی پس منظر میں پومپیو طیارے سے باہر آ رہے ہیں۔ اس کے بعد وزیر خارجہ نے برسلز میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل سے بحر اوقیانوس کے آر پار سلامتی کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا جس کا مقصد نومبر میں ہونے والے نیٹو کے وزرائے خارجہ اور نیٹو کے راہنماوًں کے اجلاس کی تیاری کرنا تھا۔

دسمبر میں اپنے لندن کے دورے کے دوران پومپیو، صدر ٹرمپ کی قیادت میں نیٹو کے لیڈروں کے اجلاس میں شرکت کرنے والے امریکی وفد میں شامل تھے۔ امریکی وفد نے نیٹو کی 70ویں سالگرہ میں شرکت کی اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مل جل کر بوجھ اٹھانے کی تعریف کی۔
اوپر تصویر میں پومپیو جب نیٹو ممالک کے سربراہوں کے لیے دیئے جانے والے ظہرانے میں شرکت کے لیے بکنگھم پیلس پہنچے تو شاہی گھرانے کے نائب مہتمم لیفٹننت کرنل انتھونی چارلس رچرڈز (دائیں) نے ان کا استقبال کیا۔

مئی میں صدر ٹرمپ کے برطانیہ کے سرکاری دورے کے دوران پومپیو نے امریکی وفد کے ایک رکن کی حیثیت سے لندن کا دورہ کیا۔ یہاں پومپیو (بائیں) برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے سے (تصویر میں موجود نہیں ہیں) لندن میں ملاقات کرنے کے بعد 10 ڈاؤننگ سٹریٹ سے باہر آ رہے ہیں۔

مئی میں سوچی میں ہونے والے مذاکرات سے قبل پومپیو روسی صدر ولادیمیر پیوتن سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ پومپیو، پیوتن اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے مختلف معاملات کا احاطہ کرنے والی دوطرفہ اور کثیرالجہتی مشکلات پر تبادلہ خیالات کیا۔ اس ملاقات سے ایک روز قبل پومپیو تبادلے کے امریکی پروگرام کے سابقہ شرکاء کے ساتھ ملنے اور گمنام سپاہی کے مقبرے پر چادر چڑہانے کے لیے ماسکو میں رکے۔ (موخر الذکر وہ مقام ہے جہاں پر دوسری عالمی جنگ کے دوران ماسکو کے لیے لڑی جانے والی لڑائی میں ہلاک ہونے والا ایک سپاہی دفن ہے۔)

صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ ان کے ساتھ فروری کے اواخر میں ہنوئی، ویت نام میں ہونے والی ملاقات کے دوران باتیں کررہے ہیں اور پومپیو سن رہے ہیں۔ پومپیو نے صدر اور کِم کی سربراہی ملاقات میں شرکت کے علاوہ ویت نامی لیڈروں کے ساتھ ہونے والی دو طرفہ ملاقانوں میں بھی شرکت کی۔

اسرائیل کے وزیر اعظم بیجمن نیتن یاہو (بائیں) اور پومپیو (دائیں) نے مارچ میں یروشلم کے قدیم شہر میں مغربی دیوار کا دورہ کیا۔ یروشلم میں اپنے قیام کے دوران پومپیو نے شرقی بحیرہ روم کو درپیش توانائی اور سلامتی کے بنیادی مسائل پر بات چیت کرنے کے لیے اسرائیلی، قبرصی اور یونانی لیڈروں سے تبادلہ خیالات کیا۔

پومپیو اکتوبر میں وسطی اٹلی میں پاسنتیرو میں (پس منظر میں دکھائی دینے والے) اپنے آبا و اجداد کے مکان کے دورے کے دوران لوگوں کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ پومپیو نے مذہبی آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے فروغ کے لیے پوپ فرانسس سے ویٹی کن میں نجی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے خصوصی طور پر مشرق وسطٰی کے کمزور عیسائیوں پر توجہ دینے کی بات کی۔ انہوں نے روم کا دورہ بھی کیا جہاں وہ اٹلی کے صدر سرگیو ماٹاریلا، وزیر اعظم گیسپی کونتے، اور وزیر خارجہ لوئگی دی مائیو سے ملے۔

نائب صدر پینس اور (دائیں طرف بیٹھے ہوئے) پومپیو 17 اکتوبر کو انقرہ، ترکی میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ شمال مشرقی شام کی صورت حال پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اسی دن پینس اور پومپیو نے ترکی کے صدر طیب رجب اردوگان سے ملاقات کی۔

19 ستمبر کو وزیر خارجہ متحدہ عرب امارات اور ہمسایہ ملک سعودی عرب کے دوروں کے بعد ابو ظہبی سے روانہ ہو رہے ہیں۔ بیرونی ممالک کے اپنے دوروں کے دوران وزیر خارجہ وقت نکال کا امریکہ کے سفارت خانوں کے اہلکاروں سے بھی ملاقاتیں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر دورے کے بعد وہ واشنگٹن واپسی پر اپنے رفقائے کار کو حالات سے آگاہ کرتے ہیں۔
“امریکہ، جیسا کہ ہمیشہ کر چکا ہے دنیا بھر میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ دنیا کے ایک ایسے پرامن، آزاد خیال نظام کے لیے کام کرنا جاری رکھے گا جس کا دنیا کا ہر ایک شہری مستحق ہے۔” — وزیر خارجہ مائیک پومپیو