
ڈاکٹر زاھر سحلول اور میسون المصری کو سال 2020 کا گاندھی امن ایوارڈ دیا جائے گا۔
امسال یہ ایوارڈ حاصل کرنے والوں کے ناموں کا اعلان “پروموٹنگ انڈیورنگ پیس” (پائیدار امن کے فروغ) نامی ایک غیر منفعتی گروپ نے مارچ میں کیا۔ سحلول ایک ڈاکٹر ہیں اور ماضی میں “شامی امریکی میڈیکل سوسائٹی” (ایس اے ایم ایس یا سیمز) کے صدر رہ چکے ہیں۔ جبکہ المصری “وائٹ ہیلمٹس” یعنی سفید خود (جسے شام کے شہری دفاع کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) کی ایک سابقہ رضاکار کارکن ہیں۔ انہوں نے شام کی خانہ جنگی میں پھنس جانے والے عام شہریوں کی جانیں بچائیں۔

1960ء سے لے کر آج تک ریاست کنیٹی کٹ میں قائم یہ وکالتی تنظیم تقریباً ہر سال یہ ایوارڈ دیتی چلی آ رہی ہے۔ اس تنظیم کی ویب سائٹ کے مطابق یہ ایوارڈ حاصل کرنے والوں کو “بین الاقوامی امن اور خیرسگالی کے فروغ کے لیے کام کرنے کی بنا پر” خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔
زاھر سحلول
سیمز شام سے تعلق رکھنے والے طبی پیشے سے منسلکہ افراد کا امریکی نیٹ ورک ہے۔ سحلول نے 2011ء سے 2015ء تک اس تنظیم کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ سیمز کی ترجمان لبنٰی حسیری نے بتایا، “اِن (سحلول) کی قیادت کے دوران سیمز نے 2011ء میں خطرات کا سامنا کرنے والے شامیوں کے لیے جنوبی ترکی میں پہلا میڈیکل مشن قائم کیا۔”
وہ بتاتی ہیں کہ یہ پہلا مشن “سیمز کے ترکی، اردن، اور لبنان کے اُن مشنوں کا پیش خامہ ثابت ہوا جن میں بین الاقوامی طبی رضاکاروں کی شرکت اور پیشہ ورانہ تربیت اور دواؤں اور جراحی سے علاج شامل تھے۔”
2012ء میں سیمز نے ایک بار پھر سحلول کی قیادت میں شام میں انسانی بحران کا سامنا کرنے کے لیے “سیو سیریئن لائیوز” یعنی شامی زندگیاں بچائیے نامی مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم سے سیمز کو شام، ترکی، لبنان اور اردن میں اپنے دفاتر قائم کرنے میں مدد ملی۔
سیمز نے شام میں ہسپتال تعمیر کیے اور ہسپتالوں کی تعمیر نو کی تاکہ وہاں پر اور دوسرے مقامات پر صحت کی سہولتوں میں مدد فراہم کی جا سکے۔ حتٰی کہ یہ کام نئے کورونا وائرس کے خطرات کے باوجود بھی جاری ہیں۔ آج تک سیمز ضرورت مندوں کے 15.5 ملین علاج کر چکی ہے۔
دمشق سے میڈیکل ڈگری حاصل کرنے والے سحلول آج کل پھیپھڑوں کے ماہر ڈاکٹر کی حیثیت سے شکاگو میں کام کر رہے ہیں اور کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ وہ میڈ گلوبل نامی ایک تنظیم کے صدر بھی ہیں۔ طبی رضاکاروں کی یہ تنظیم پناہ گزینوں اور تباہی کا شکار ہونے والے علاقوں میں مفت طبی سہولتیں فراہم کرتی ہے۔

میسون المصری

شام کے شہر درعا سے تعلق رکھنے والی میسون المصری ایک طویل عرصے تک جنوبی شام میں “وائٹ ہیلمٹس” تنظیم کے خواتین کے شعبے کی سربراہ رہیں۔ یہ وہی تنظیم ہے جس نے روسی اور شامی حکومتوں کے فضائی حملوں سے تباہ شدہ گھروں کے ملبوں سے ہزاروں کی تعداد میں عام شہریوں کو نکالا۔
2018ء میں مسلسل گولہ باری اور بمباری کا سامنا کرنے کے بعد، وائٹ ہیلمٹس کے درجنوں دیگر رضاکاروں کے ہمراہ المصری اور اُن کے شوہر کو کینیڈا منتقل کیا گیا۔ اخبار ٹورنٹو سٹار لکھتا ہے کہ المصری اور شام سے نکالے گئے اُن کے ساتھی آہستہ آہستہ اپنی زندگیوں کی تعمیرِ نو کر رہے ہیں۔ مگر وہ اُن کے لیے پریشان ہیں جو ابھی تک خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔
مخالف فوجوں کے زیرقبضہ شام کے علاقوں میں کام کرتے ہوئے وائٹ ہیلمٹس کے لوگوں پر دمشق اور ماسکو نے حملے کیے کیونکہ وہ اِن دونوں حکومتوں کی جانب سے کیے جانے والے جنگی جرائم کے دستاویزی ثبوت اکٹھے کر رہے تھے۔
اب کورونا وائرس نے وائٹ ہیلمٹس کے کام کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ تاہم حالیہ فائر بندی کی وجہ سے وائٹ ہیلمٹس کے رضاکاروں نے شام کے اِدلب صوبے میں اس امید کے ساتھ جراثیموں سے پاک کرنے کا کام شروع کر دیا ہے کہ وائرس سے کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
2013ء کے بعد امریکی حکومت وائٹ ہیلمٹس کو 33 ملین ڈالر سے زائد کی رقم فراہم کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ اکتوبر 2019ء میں ٹرمپ انتظامیہ نے اس رضاکار گروپ کو مزید 4.5 ڈالر بھجوائے۔ محکمہ خارجہ نے 2019ء میں ایک بیان میں کہا، “سب سے پہلے موقعے پر پہنچنے والے اِن دلیر افراد کا کام دنیا کا خطرناک ترین کام ہے۔”
محکمہ خارجہ نے کہا، “امریکہ وائٹ ہیلمٹس کے کام کی پرزور حمایت کرتا ہے۔ اس تصادم کے شروع ہونے سے لے کر آج تک انہوں نے [شامی آمر بشار] کے کیمیائی ہتھیاروں کے بیہمانہ حملوں کا نشانہ بننے والوں سمیت، 114,000 افراد کی جانیں بچائی ہیں۔”

ماضی میں گاندھی امن ایوارڈ جن شخصیات کو دیا جا چکا ہے اُن میں ایلینور روزویلٹ، بنجمن سپاک، ڈوروتھی ڈے اور سیزر شاویز شامل ہیں۔ ایوارڈ حاصل کرنے والوں کو ایک تمغہ دیا جاتا ہے جس پر “کانسی امن” کے الفاظ کندہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ تمغہ ناکارہ بنائے گئے جوہری میزائل سے حاصل کیے جانے والے تانبے سے تیار کیا جاتا ہے۔