ہر سال ایک نجی خیراتی تنظیم، جان ڈی اور کیتھرین ٹی میکارتھر فاؤنڈیشن تخلیقی اور دانشورانہ پراجیکٹوں پر کام کرنے والے 20 سے 30امریکیوں کو گرانٹس (امدادی رقومات) دیتی ہے۔
(غیرسرکاری طور پر ہی سہی) مگر عام طور پر انہیں “نابغوں کی امدادی رقومات” یعنی گرانٹس جاتا ہے۔ فاؤنڈیشن سائنسی، دانشورانہ یا فنی مقاصد کے فروغ کے لیے ہر ایک فیلو (کامیاب امیدوار) کو پانچ سال میں625,000 ڈالر کی امداد دیتی ہے۔
میکارتھر فیلوز کی مینیجنگ ڈائریکٹر سیسیلیا کونریڈ نے کہا کہ اس سال کے فیلوز “انتہائی اہم سوالات اٹھا رہے ہیں، اختراعی ٹکنالوجیاں اور عوامی پالیسیاں تیار کر رہے ہیں، انسانی حالات کے ہمارے فہم میں اضافہ کر رہے ہیں اور آرٹ کے ایسے فن پارے تخلیق کر رہے ہیں جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور متاثر کرتے ہیں۔”
سال 2020 کے مندرجہ ذیل پانچ فیلوز ہیں:

آئیسیا اینڈریوز ہارورڈ یونیورسٹی میں ریاضی اور شماریات کو ملا کر معاشرے کی مستقبل کی راہ عمل کا بہتر اندازہ لگانے کے لیے معاشیات، سماجی سائنس اور طب میں آنے والی تبدیلیوں کو ناپنے کے لیے کثیرالموضعاتی نئے وسائل تیار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “میرے کام میں جو چیز میری دلچسپی بڑہاتی ہے وہ یہ ہے کہ اِن سوالات سے بے شمار چیزوں کا مستقبل جڑا ہوا ہے: جیسے طویل اقتصادی نمو، ترقی، عدم مساوات، کساد بازاریاں۔ یہ مطلقاً حقیقی سوالات ہیں۔”

دماغ کے عقلی حصے کے سائنس دان، ڈیمیئن فیئر یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے دماغ جس طرح کام کرتے ہیں اس کی کیا وجوہات ہیں۔ وہ دماغی سائنس کا مطالعہ کرنے میں استعمال ہونے والے ایم آر آئی جیسے روائتی طریقوں کو نفسیات اور ریاضی کی جدید تکنیکوں سے ملا رہے ہیں۔ اس کا مقصد انسانی دماغوں کا اس وقت مطالعہ کرنا ہے جب وہ بچپن سے جوانی کے اوائل تک کے عرصے کے دوران بڑے ہو رہے ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، اندرونی طور پر، دماغوں کی حیثیت بہت انفرادی ہوتی ہے۔ ہمیں بہتر طریقے سے میکانکی بنیادوں کو واضح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے علاجوں کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کے طویل مدتی نتائج میں بھی بہتری لا سکیں۔”

سیچانگو لاکوٹا قوم سے تعلق رکھنے والی ڈرامہ نگار، لاریسا فاسٹ ہارس تھیئٹر کے لیے ایسے ڈرامے تحریر کرتی ہیں جن میں آبائی امریکیوں کے امریکی تجربات کو پیش کیا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف اس دھرتی کی کہانیاں بیان کرتی ہیں بلکہ وہ اِن تک زیادہ سے زیادہ رسائی بھی فراہم کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “تھیئٹر ہر کہیں ہے اور سب کچھ ہے اور تمام انسان تھیئٹر میں حصہ لیتے ہیں۔”

محمد آر سید صیام دوست ایک حیاتیاتی کیمیا دان ہیں۔ وہ حیاتیاتی طور پر متحرک یا طبی علاج کے خواص رکھنے والے نئے اور چھوٹے مالیکیولوں (سالموں) کی ترکیب پر تحقیق کر رہے ہیں۔ اُن کی اس تحقیق کا تعلق خصوصی طور پر متعدی بیماریوں کے حوالے سے ہے۔ انہوں نے بتایا، “ہمارے فطری طور پر وجود میں آنے والے زیادہ تر علاجوں کا تعلق ایسی قدرتی اشیا کی ایک قلیل تعداد سے ہے جن تک ہم کسی بھی تجربہ گاہ میں پیداوار کے عام حالات کے تحت رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔” مثال کے طور پر پینسلین ایک عام قسم کی پھپھوندی کے اندر سے دریافت ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا، “لہذا ہماری منزل اسی طرح کی پوشیدہ اشیا کے گروپوں تک رسائی حاصل کی کوشش کرنا ہے اور پھر اِن مالکیولوں کی خصوصیات کی جانچ پڑتال کرنا ہے۔”

دستاویزی فلم بنانے والی، نانفو وانگ سنسر شپ، مطلق العنان حکومتوں اور بدعنوانی سے عام انسانوں پر مرتب ہونے والے اثرات کی عکس بندی کرتی ہیں۔ وہ خاص طور پر چین کے اندر، جہاں وہ پیدا ہوئیں، اسی طرح کے مسائل اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے ظلم و ستم کے دوران انسانی حقوق کے فعال کارکنوں کی جدوجہد پر توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا، “میں ایسی فلمیں بناتی ہوں جن میں آزادی، اقتدار، پراپیگنڈے اور انسانی زندگیوں پر حکومتی کنٹرول کو دکھایا جاتا ہے۔ میرے لیے ہر ایک فلم ایک دریافتی سفر ہے۔”
امداد حاصل کرنے والے دیگر 16 فیلوز کے بارے میں جاننے کے لیے میکارتھر فیلوز کی ویب سائٹ ملاحظہ فرمائیے۔