نیپال میں آدھی رات تھی جب “فل سرکل” نامی کوہ پیما ٹیم کے پہلے ارکان 8,849 میٹر بلند ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچے۔
مئی کی اس صاف رات تقریباً پانچ گھنٹے تک وہ شدید سردی سے لڑتے رہے۔ سخت عمودی برف پر پڑنے والا ہر قدم ان کے پٹھوں اور پھیپھڑوں پر بھاری ثابت ہو رہا تھا۔ لیکن اب اُن کی محنت اور تربیت رنگ لے آئی تھی۔ آخری مراحل میں اٹھائے جانے والے اِن قدموں کے ساتھ یہ کوہ پیما ایک نئی تاریخ رقم کر رہے تھے کیونکہ اس سے پہلے سیاہ فام کوہ پیماؤں کی کسی بھی ٹیم نے دنیا کی اس بلند ترین چوٹی کو سر نہیں کیا تھا۔
فلوریڈا سے تعلق رکھنے والی ٹیم کی ایک رکن، ایبی ڈیون نے امریکی سرزمین پر واپس آنے کے بعد کہا کہ یہ سب کچھ “بڑا سنسنی خیز تھا۔”
“دوسروں کے لیے کوہ پیمائی کو ٹکڑوں میں بیان کرنا تاکہ وہ ہر سطح پر اس میں شامل ہو سکیں، بعینہی یہ وہ کام ہے جو میں کرنا چاہتی ہوں۔”
اور وہ بالکل یہی کام کر رہی ہیں۔ ڈیون “کورال کلِف” نامی کوہ پیمائی کے ایک جِم کی مالکہ ہیں۔ آج کل اُن کا بزنس تمام پس منظر اور نسلوں کے حامل لوگوں کو ایک ایسے کھیل کی طرف راغب کررہا ہے جو ہو سکتا ہے باہر سے دیکھنے میں مشکل اور مخصوص دکھائی دیتا ہو۔ وہ امریکیوں کے اُس بڑے گروپ کا حصہ ہیں جنہوں نے بیرونی مہم جوئی کے کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے زیادہ سے زیادہ ایسے لوگوں کو لانے کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے جن کی نمائندگی کم ہے۔
“کایک کشتی کو چلانے کا تعلق اجتماعی بیداری سے ہے۔ سفر اور کوہ پیمائی کا تعلق ذمہ داری اور تیاری سے ہے۔”
“آؤٹ ڈور ایفرو” جیسے گروپ سیاہ فام امریکیوں کی کوہ پیمائی میں دلچسپی پیدا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اسی طرح ریاست اوریگن کی رہنی والی “پیٹی گونیا” کے نام سے مشہور ایک سرگرم کارکن، ایل جی بی ٹی کیو آئی+ کمیونٹی کے لیے بڑے پیمانے پر بیرونی تفریح کا اہتمام کرتی ہیں۔ “براؤن فوکس فشنگ” کے نام کا ایک اور گروپ اڑنے والی مچھلی سے جڑے افسانوں کے بارے میں جاننے میں مدد کرتا ہے۔

بیرونی تفریحات کے معتبر رسالے اور اخبارات تصاویر اور کہانیوں میں تنوع کو دکھا رہے ہیں۔ مئی/جون 2022 کے “آؤٹ سائیڈ” نامی رسالے کے سرورق پر ” ایچ بی سی یوز آؤٹ سائیڈ” کے اراکین کو دکھایا گیا ہے۔ تاریخی لحاظ سے سیاہ فام کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات کو مخففا ایچ بی سی یوز کہا جاتا ہے۔ ایچ بی سی یوز آؤٹ سائیڈ اسی طرح کی لوگوں کا ایک ایسا گروپ ہے جو بنیادی طور پر بیرونی تفریحات میں دلچسپی رکھتا ہے اور “زیادہ سے زیادہ سیاہ فام چہروں کو دوڑنے والی پگڈنڈیوں، پہاڑوں پر چڑھنے اور آؤٹ ڈور انڈسٹری کے بورڈوں کے اجلاس میں بیٹھے ہوئے” دیکھنے کا متمنی ہے۔
کیلی فورنیا کے “آؤٹ ریچ” نامی بیرونی تفریحات سے متعلق رابطے کے گروپ کے ڈائریکٹر، بین میک کیو کہتے ہیں، “میرے خیال میں بہت سے اقلیتی شرکاء کیمپنگ اور کوہ پیمائی اور سرفنگ جیسی کھیلوں کو دیکھتے ہیں اور انہیں جب اپنے جیسا کوئی فرد دکھائی نہیں دیتا تو حیران ہوکر پوچھتے ہیں، ‘یہ کن لوگوں کی کھیلیں ہیں؟'” یہ گروپ خطرے سے دوچار بچوں کو مہم جویانہ بیرونی تفریحات پر لے کر جاتا ہے۔ اِن بچوں میں سے زیادہ تر کا تعلق اقلیتوں سے ہوتا ہے۔ میک کیو کا کہنا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ نوجوان ریاستی پارکوں یا قومی پارکوں میں قائدانہ عہدوں پر فائز افراد سے ملاقات کرتے وقت تنوع کو دیکھیں تاکہ اگلی نسل “ممکنات کو اپنے تصورات میں لا سکے۔”
اس سال کے شروع میں ڈینور میں، شرکاء “اکیڈمی آف اربن لرننگ” میں کیاک کشتی چلانے کا طریقہ سیکھنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ (© New Treks)کیاکنگ، کوہ پیمائی اور پہاڑوں پر سائیکل چلانے جیسی سرگرمیوں، حتٰی کہ اِن سے بھی آسان کیمپنگ اور کوہ پیمائی جیسی بیرونی تفریحات میں حصہ لینے والوں میں تاریخی طور پر تنوع کی کمی کا سامنا رہا ہے۔ اس کی وجوہات بے شمار ہیں۔ مگر اس کی بنیادی وجہ وہ دور ہے جب کم نمائندگی والے گروہوں کو بڑی حد تک پارکوں، تیراکی کے تالابوں اور کیمپ گراؤنڈز سے باہر رکھا جاتا تھا۔ اب اِن میں اقتصادی وجوہات بھی شامل ہو گئی ہیں کیونکہ کیاک کشتی مہنگی ہوتی ہے اور بہت سے لوگ شہروں میں رہتے ہیں، جہاں فطرت سے لطف اندوز ہونا مشکل ہو سکتا ہے، اس لیے انہیں سفر کے اخراجات بھی برداشت کرنے ہوتے ہیں۔
یہ بات اینڈی ہارٹمین پر صادق آتی ہے جو آدھے کورین ہیں اور نیویارک شہر کے قریب پلے بڑھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں “جو بیرونی تفریح میں نے سب سے زیادہ کی ہے وہ مال کے ارد گرد سکیٹ بورڈ یا موٹر سائیکل چلانا تھا۔ میں نے اپنے پورے بچپن میں کبھی کیمپنگ نہیں کی، کبھی کوہ پیمائی نہیں کی، [اور نہ ہی] کبھی بیرونی تفریح کا کوئی کام کیا۔”

بیس کی دہائی کے وسط میں ہارٹمین میں اُس وقت تبدیلی آئی جب وہ فوج سے فارغ ہونے کے بعد کالج میں تعلیم حاصل رہے تھے۔ اِس دوران وہ موسم سرما میں شمالی نیو یارک کے ایڈیرونڈیک پہاڑوں میں کوہ پیمائی کرنے گئے۔ وہ بتاتے ہیں، “میں اِس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا، اور ٹھنڈی اور پرسکون ہوا میں اپنے ہاتھ بلند کیے۔ [مجھے] یہ بہت اچھا لگا! اس طرح کا تجربہ مجھے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔”
آج ہارٹمین “نیو ٹریکس” کے نام سے ریاست کولوراڈو میں ایک غیر منفعتی ادارہ چلاتے ہیں۔ وہ ایسے سکولوں میں جاتے ہیں جہاں کم آمدنی والے خاندانوں کے بچوں کی ایک بڑی تعداد پڑھتی ہے اور طلباء کو خیمہ لگانے یا برف کی کلہاڑی استعمال کرنے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔ اس کے بعد نیو ٹریکس انہیں تعلیمی سرگرمی کے طور پر بیرونی مہم جوئی پر لے کر جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں، “یہ بچے ڈینور سے کبھی باہر نہیں نکلے [اور] چٹانوں کی کیا بات کریں،” اِن میں سے بہت سوں نے کبھی اصلی گائے بھی نہیں دیکھی۔ ہارٹمین کے مطابق سب سے اچھی بات یہ ہے کہ بچے شہری ماحول سے باہر نکل کر جو کچھ سیکھتے ہیں اُس کا اطلاق اُن کی روز مرہ زندگیوں پر ہوتا ہے۔
نیو ٹریکس کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر، لِنیا ڈیلوچی کہتی ہیں، “چٹانوں پر چڑھنے کا تعلق حقیقی معنوں میں گفت و شنید اور اعتماد اور بات چیت کرنا سیکھنے سے ہے۔” کیاک کشتی چلانے کا تعلق اجتماعی آگاہی سے ہے جبکہ سفر اور کوہ پیمائی کا تعلق ذمہ داری اور تیاری سے ہے۔
میک کیو اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بیرونی تفریحات کے فوائد لطف اندوزی سے بڑھکر کہیں زیادہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں، “ایسے بہت سارے سائنسی مطالعات موجود ہیں جن سے فطرت تک باقاعدہ رسائی کے جسمانی، جذباتی، سماجی اور ذہنی صحت کے فوائد ثابت ہوتے ہیں۔”

جہاں تک ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی فل سرکل ٹیم کا تعلق ہے وہ اپنے نئے مشن یعنی تمام نسلوں، ثقافتوں اور پس منظر کے بچوں کے لیے بیرونی تفریحات کے طریقے نکالنے کو پورا کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ٹیم کے رکن، منوہا آینو کے الفاظ میں، “ہمیں اس بات کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔” آینو میمفس راکس نامی ٹینیسی کے کوہ پیمائی کے جِم میں کام کرتے ہیں جہاں سہولتوں کی کمی کے شکار نوجوانوں کو کوہ پیمائی سکھائی جاتی ہے۔
یہ مضمون فری لانس مصنف ٹم نیویل نے تحریر کیا۔