
پورے امریکہ متعدد پارکوں اور راستوں کے ذریعے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور ان کی شاندار زندگی کو خراج تحسیسن پیش کیا گیا ہے۔
اٹلانٹا میں واقع مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے تاریخی قومی پارک میں شہری حقوق کے اِس رہنما کی جائے پیدائش، ایبینزر بیپٹسٹ چرچ، جہاں انہوں نے 1968 میں اپنے قتل تک منسٹر اور شریک پادری کے طور پر خدمات انجام دیں، اُن کی جائے تدفین، اور نمائش کے لیے رکھی جانے والی اُن کی اور اُن کی اہلیہ، کوریٹا سکاٹ کنگ کی اشیاء شامل ہیں۔

1965 میں کنگ اور دیگر سرگرم کارکنوں نے ریاست الاباما میں سیلما سے منٹگمری تک کا 87 کلومیٹر طویل فاصلہ کانگریس سے 1965 کے ووٹنگ کے حقوق کے اُس قانون کو منظور کرانے کے لیے پیدل طے کیا جس میں تمام افریقی نژاد امریکیوں کو ووٹ دینے کے حق کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس راستے کو سیلما منٹگمری کے تاریخ قومی راستے کے نام سے محفوظ کیا گیا ہے۔
“مارٹن لوتھر کنگ ایکویلیٹی ٹریل”کے نام سے مشی گن کے 5.48 کلومیٹر طویل راستے کے ساتھ کنگ کے ذاتی تعلق کو نمایاں کرنے کے بجائے امریکہ میں سماجی انصاف کے لیے اُن کی خدمات کے اعتراف کے طور پر کنگ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ پیدل چلنے والوں کے لیے یہ راستہ پُرسکون مضافاتی محلوں، ایک پارک اور دلدلی علاقوں سے گزرتا ہے۔

ٹینیسی یونیورسٹی کے جغرافیے کے پروفیسر، ڈیرک ایلڈرمین کہتے ہیں، “جب ہم کنگ کے نام کو کسی پارک یا راستے، سڑک، سکول جیسے مقام یا کسی اور مخصوص مقام سے جڑا دیکھتے ہیں تو یہ محض کِنگ کی یادگار ہی نہیں ہوتی۔ ہو سکتا ہے، بلکہ ایسا ہی ہونا چاہیے کہ اس بنیادی ڈھانچے کا تعلق نسلی امتیاز کی تاریخ کی کسی بڑی سوچ سے ہو۔” دہائیوں سے رسمی اصولوں اور قوانین کے ساتھ ساتھ غیر رسمی سماجی توقعات کے تحت امریکہ میں نسلی علیحدگی پر عمل کیا گیا۔ نسلی بنیادوں پر علیحدگی کی بنیاد پر یہ فیصلہ ہوتا تھا کہ کس نسل کے لوگوں کو پارکوں اور راستوں تک رسائی حاصل ہوگی۔

تفریحی پارکوں تک منصفانہ رسائی کنگ کی شہری حقوق کی فعالیت کا ایک نمایاں مقصد تھا۔
کنگ کو نسلی بنیادوں پر علیحدگی کے خلاف احتجاج کرنے پر قید میں ڈالا گیا تھا۔ کنگ نے 1963 میں “برمنگھم کی ایک جیل سے خط” میں اُن ناقدین کو جواب دیا جو یہ سوچتے تھی کہ افریقی نژاد امریکیوں کو سماجی انصاف کا انتظار کرنا چاہیے۔ اُنہوں نے اس خط میں پارکوں کا ذکر نسلی مساوات کے لئے ایک میدان جنگ کے طور پر کیا۔
””جب آپ اپنی چھ سالہ بیٹی کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ وہ عوامی تفریحی پارک میں کیوں نہیں جا سکتی جس کا ابھی ابھی ٹیلی ویژن پر اشتہار دیا گیا ہے تو اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں آنسووں سے بھر جاتی ہیں اور جب اسے بتایا جاتا ہے کہ فن ٹاؤن غیر سفید فام بچوں کے لیے بند ہے اور اُس کے دماغی آسمان پر احساس کمتری کے بادل چھائے ہوئے دیکھتے ہیں … تب آپ کو سمجھ آنے لگتی ہے کہ ہمارے لیے انتظار کرنا کیوں مشکل ہے۔” مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے “برمنگھم جیل سے ایک خط” سے اقتباس”
جنوبی کیرولائنا جانے والے لوگ پین سینٹر میں جا سکتے ہیں۔ ایک الگ تھلگ جگہ پر واقع تعمیر نو کے دور کا یہ ایک قومی پارک ہے جہاں کنگ سرگرم کارکنوں کے ہمراہ تنہائی کے لمحات گزارنے کے لیے جایا کرتے تھے، تکان اتارا کرتے تھے اور اپنے خیالات کو مجتمع کیا کرتے تھے۔ یہیں پر انہوں نے اپنی مشہور تقریر “I Have a Dream” سمیت بہت سی تقریریں لکھیں۔
کنگ نے نیشنل مال پر لنکن کی یادگارکی سیڑھیوں پر 1963 میں یہ تقریر کی تھی۔ یہ جگہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی یادگار سے تھوڑی سی دور ہے۔ کنگ کی اس یادگار کا افتتاح 2011 میں ہوا۔ اس میں کنگ سے مشابہت رکھنے والی ایک شبیہہ بنائی گئی ہے جو بظاہر اپنے پیچھے پہاڑی پتھر کو کاٹ کر بنائی گئی دکھائی دیتی ہے۔ اس سے اگست 1963 میں واشنگٹن میں کیے جانے والے مارچ کے دوران کنگ کی تقریر کے اِن الفاظ کی یاد تازہ کی گئی ہے: “مایوسیوں کے پہاڑ سے آگے، امید کا پتھر۔” ان کی کئی تقریروں کے اقتباسات پتھروں میں تراشے گئے ہیں۔

یہ جگہیں آنے والوں کو امریکی شہری حقوق کی تحریک میں کنگ کے اہم مقام کے بارے میں جاننے میں مدد کرتی ہیں۔ اور اس عمل کے دوران یہ جگہیں کھلی فضا میں ورزش اور تعلیمی سرگرمیوں میں سب کو شامل کرتی ہیں۔ جیسا کہ نیشنل پارک فاؤنڈیشن کا اپنی ویب سائٹ پر کہنا ہے، “یہ ضروری ہے کہ ہر کوئی ہمارے پارکوں میں آنے پر خوشی محسوس کرے۔ [یہ پارک] ہم سب کے ہیں۔”
دنیا بھر میں بھی پارکوں کو کنگ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ نئی دہلی میں گاندھی-کنگ میموریل پلازہ، کنگ اور مہاتما گاندھی، دونوں کی سماجی انصاف کے لیے کی گئی عدم تشدد کی جدوجہد کی یاد مناتا ہے۔ مہاتما گاندھی ایک ہندوستانی وکیل تھے اور انہوں نے 1947 میں ہندوستان کو برطانوی نوآبادیاتی حکومت سے آزاد کرانے میں مدد کی تھی۔
ایلڈرمین کہتے ہیں، “ان دونوں ناموں کو ایک ساتھ ملانے، علامتی اور لفظی معنوں میں آپس میں جوڑنے سے غور و فکر کرنے کا لمحہ تخلیق پاتا ہے،”