
یہ مضون امریکی محکمہ خارجہ کی پرنسپل نائب ترجمان جالینا پورٹر نے تحریر کیا ہے۔
میرے ذمے ایک اہم اور معنی خیز کام ہے۔ محکمہ خارجہ کی پرنسپل نائب ترجمان کے طور پر، میں امریکی اور عالمی سامعین کے لیے ملکی اور غیر ملکی پریس کے اراکین کو امریکہ کی خارجہ پالیسی کی وضاحت کرتی ہوں۔
یہ کام اہم اور دلچسپ ہے اور مجھے یہ بہت پسند ہے۔ اگر میری پیدائش سے پہلے فارن سروس میں شامل ہونے والیں، فیلس اوکلے نہ ہوتیں تو یہ کارنامہ انجام دینے کے لیے میں اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی تھی۔ اب تک خواتین، وزیر خارجہ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ پورے محکمے میں بہت سے اعلٰی عہدوں پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔ ہم سب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم فیلس اوکلے کے محکمہ خارجہ میں ابتدائی دور میں نمایاں اور اعلٰی سطحی خاتون رہنما ہونے پر اُن کی مشکور ہوں۔
فیلس اوکلے نے 1957 میں فارن سروس میں شمولیت اختیار کی اور انہیں اپنی پہلی بیرون ملک تعیناتی کے لیے مستقبل میں ہونے والے اپنے شوہر، رابرٹ اوکلے کے ساتھ ملاقات تک انتظار کرنا پڑا۔ ان کی سروس کے زمانے میں ایک غیر تحریری قانون ہوا کرتا تھا جس کے مطابق خواتین فارن سروس افسر(ایف ایس او) اگر شادی کر لیتیں تو انہیں فارن سروس کو خیرباد کہنا پڑتا تھا۔ اوکلے نے کہا کہ اس وقت یہ ایک قبول شدہ رواج ہوا کرتا تھا اور “ہم اس امتیازی سلوک کو بلا چون و چرا قبول کیا کرتی تھیں۔”
تاہم اس وقت وہ 16 سال تک ایف ایس او نہ رہیں جب وہ اپنے شوہر کی سوڈان، آئیوری کوسٹ اور فرانس میں سفارت خانوں میں تعیناتیوں کے دوران اُن کے ساتھ گئیں۔ دو بچوں کی پرورش اور غیر مانوس جگہوں پر رہنے کے علاوہ، اوکلے نے اپنے شوہر کی سفارتی تقریبات کو منظم کرنے میں بھی ہاتھ بٹایا۔ اس وقت ایک شادی شدہ فارن سروس افسر سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ “ایک تنخواہ میں دو” آدمیوں کا کام کرے۔

جلد ہی امریکی ثقافتی منظر نامے میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔ 1971 میں محکمہ خارجہ نے خواتین ایف ایس اوز پر شادی کی پابندی ختم کر دی۔ اوکلے نے 1974 میں باضابطہ طور پر فارن سروس میں دوبارہ شمولیت اختیار کی اور میاں بیوی دونوں ایک جوڑے کی حیثیت سے ایک ہی محکمے میں خدمات انجام دینے لگے۔ فیلس اوکلے نے واشنگٹن اور کنشاسا میں اپنے فرائض سنبھالے جبکہ اُن کے شوہر نے زائر میں (جسے آج ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو کے نام سے جانا جاتا ہے) امریکی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
1986 میں وزیر خارجہ، جارج پی شلٹز نے فیلس اوکلے کو محکمہ خارجہ کی نائب ترجمان مقرر کیا۔ اس طرح وہ اس عہدے پر کام کرنے والی وہ پہلی خاتون بن گئیں۔ آج یہی کام میں کر رہی ہوں۔
پینتیس سال بعد مجھے صدر جوزف آر بائیڈن جونیئر نے پہلی افریقی نژاد امریکی خاتون کے طور پر محکمہ کی پرنسپل نائب ترجمان کے عہدے پر فائز کیا۔ اس طرح کسی حد تک میں بھی ایک پہلکار بن گئی۔
میری تقرری سے پہلے وزیر خارجہ شلٹز واحد ایسے وزیر خارجہ تھے جن کے ساتھ مجھے سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ہُوور انسٹی ٹیوشن میں نیشنل سیکیورٹی کی فیلو کی حیثیت سے اپنے کام کے دوران کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کام کی وجہ سے اُس بات کی تصدیق ہوئی جو میں نے کمبوڈیا میں پیس کور میں خدمات انجام دیتے وقت فارن سروس افسروں میں پہلی ہی نظر میں جان لی تھی یعنی مجھے محکمہ خارجہ کے لیے کام کرکے اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کی ضرورت تھی۔ محکمے میں میرے قیام نے میرے اس یقین کی بھی تصدیق کی کہ چاہے وہ جس کسی پوزیشن پر بھی ہوں تمام خواتین کو اپنے اردگرد موجود دوسری خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔
محکمہ خارجہ کے میرے ساتھیوں سے مجھے پتہ چلا ہے کہ فیلس اوکلے اپنے کام بہترین طریقے سے انجام دیتی تھیں۔ گو کہ اُن کے اس عہدے پر کام کے وقت اور آج کے وقت کے درمیان بہت سی چیزیں بدل چکی ہیں، مگر وہ ہر روز ہماری سفارتی پریس کور کے اہم سوالات کے جوابات دینے کے لیے پوری طرح تیاری کر کے آتیں تھیں۔ وہ اسسٹنٹ سیکریٹریز اور ہمارے علاقائی اور فعال بیوروز کی پریس ٹیموں سے مشورے کرتیں اور دیگر سرکاری اداروں کے اپنے رفقائے کار کے ساتھ قریبی طور پر مل کر کام کرتیں۔ خوش قسمتی سے اس وقت ٹوئٹر جیسی کوئی چیز نہ تھی اور بریکنگ نیوز ہر روز متوقع وقت پر سامنے آتی تھیں۔
Women in government help shape how we perceive and enact policies, both now and for generations to come. I’m proud to be the first African American woman Principal Deputy Spokesperson at @StateDept, where I serve alongside so many remarkable women. #WomensHistoryMonth pic.twitter.com/577HU5luq5
— Jalina Porter (@StateDeputySpox) March 1, 2022
نائب ترجمان کے عہدے پر کام کرنے کے بعد، فیلس اوکلے کو امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے (یو ایس ایڈ) میں خدمات انجام دینے کے لیے پاکستان تعینات کر دیا گیا جبکہ ان کے شوہر نے انہی دنوں میں وہاں امریکہ کے سفیر کے طور پر خدمات دیں۔ واشنگٹن آنے کے بعد انہوں نے پناہ گزینوں کے امور پر کام کیا اور ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے اسسٹنٹ سکریٹری کے طور پر دو مرتبہ خدمات انجام دیں۔
فیلس اوکلے نے مجھ سمیت بہت سی دوسری خواتین پر بھی محکمہ خارجہ میں مواقعوں کے دروازے کھولے۔ محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ” اُس کام کو کرنے کو” اُن کی میراث قرار دیا جو “ایک طویل عرصے سے التوا میں پڑا ہوا تھا یعنی اس بات کو یقینی بنانا کہ … شادی شدہ خواتین کو ان کے مرد ہم منصبوں کے برابر حقوق حاصل ہونے چاہیئیں۔”
ہم سب جانتے ہیں کہ تنوع، مساوات، شمولیت، اور رسائی ہماری خارجہ پالیسی کو مضبوط، مستعد، زیادہ تخلیقی، اور زیادہ اختراعی بناتے ہیں۔ ہم بہترین ذہانتیں اور شراکتیں اس وقت حاصل کر پاتے ہیں جب ہم تمام لوگوں کا ان کی جنس، نسل، عمر، یا اس سے قطع نظر اُن کا خیرمقدم کرتے ہیں یا گلے لگاتے ہیں کہ وہ کس سے محبت کرتے ہیں۔ خواتین کے طور پر ہمیں محکمہ خارجہ کی نمائندگی کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ لہذا ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کی کوشش کریں۔ اس مقصد کے حصول کی شروعات اپنے ملک میں ہماری افرادی قوت سے ہوتیں ہیں۔ جب ہم صنفی مساوات اور برابری کی حمایت کرتے ہیں، تو ہم انصاف اور انسانی حقوق کی بھی حمایت کرتے ہیں اور بالآخر سب کے امن اور سلامتی کو فروغ دیتے ہیں۔
محکمے کی اُن تمام خواتین کے کام پر جو شان، شمولیت، عمدگی اور نیت کے جذبات کے ساتھ خدمات انجام دے رہی ہیں، اور حوصلہ مند خواتین کی مزید ایک نسل کو متاثر کرنے پر میں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔