سلوواک نژاد امریکی تارکین وطن کی جانب سے بنائی جانے والی ایک تاریخی فلم

سلوواک نژاد امریکیوں کی ایک شراکت کاری کے نتیجے میں پورے یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو دنیا کی پہلی باقاعدہ خاموش فلم دیکھنے کو ملی۔

اس سال “یانوسِک” نامی متحرک فلموں کی ایک شاہکار فلم کی سوویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ اس کی آزادی اظہار رائے اور جمہوریت کے پیغامات آج بھی پراثر ہیں اور اس فلم کی تخلیق کی کہانی طویل عرصے سے قائم امریکی اور سلوواک دوستی کو اجاگر کرتی ہے۔

انیسویں صدی کے وسط میں شکاگو میں سلوواک تارکین وطن کی ایک بہت بڑی تعداد آباد تھی۔ ایک وقت میں ان کی تعداد بڑھ کر چھ لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ 1920 میں سلوواک نژاد امریکیوں نے شکاگو میں “ٹاٹرا فلم کارپوریشن” قائم کی اور اسے پورے مشرقی یورپ میں پھیلانے کی غرض سے اس کے دفاتر پراگ، براٹیسلاوا اور زیلینا میں کھولنے کا منصوبہ بنایا۔

اس کارپوریشن کے قیام کے چھ ماہ بعد اس کمپنی کے نمائندے اپنی پہلی باقاعدہ فیچر فلم بنانے کے لیے سلوواکیہ گئے۔ دو بھائیوں، یاروسلاو اور ڈینیئل سیاکل نے اس فلم کے ہدایت کار اور فوٹوگرافی کے ہدایت کار کے طور پر کام کیا۔ یہ دونوں 1912 میں اپنے خاندان کے ہمراہ سلوواکیہ سے ترک وطن کرکے امریکہ آئے تھے۔

پروڈیوسر جان زودنی اور شکاگو سے تعلق رکھنے والے چیک تھیئیٹر کے ڈائریکٹر فرانٹسک ہورلیوی نے بلاٹنیکا، سلوواکیہ میں فلم یانسک کی عکس بندی کا آغاز کیا۔

شہر کی پہاڑیوں کا سلسلہ سلوواکیہ کے مشہور ڈاکو، یوراج یانوسک کی کہانی فلم بند کرنے کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتا تھا۔ اٹھارویں صدی کا یہ ہیرو، ظالم جاگیرداروں کی دولت لوٹنے اور اس دولت کو بدحال کسانوں میں تقسیم کرنے کے لیے اپنی مہم جوئیوں کی وجہ سےشہرت رکھتا تھا۔ یہ فلم  متحرک فلموں کی امریکی اور سلوواک  جدت طرازی کا امتزاج تھی۔ اس فلم کی تکمیل کے چھ ماہ بعد، اسے سلوواکیہ اور امریکہ میں نمائش کے لیے الگ الگ پیش کیا گیا۔

ابتدا میں اس فلم کا شمار اپنے دور کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلموں میں ہوتا تھا۔ مگر بعد میں اس کے بارے میں خیال کیا جاتا رہا کہ یہ گم ہوگئی ہے۔ تاہم اس کی ایک کاپی 1960 کی دہائی میں ملی۔ مگر اس فلم کی سلوواک کاپی نہیں ملی۔

دو سو سال بعد آج بھی یانوسِک سلوواکیہ میں بہت سے لوگوں کے نزدیک جابر حکمرانوں سے آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کی نمائندگی کرتا ہے۔ علمی ماہرین کے مطابق یانوسک ایک حقیقی کردار تھا۔ حتٰی کہ آج فلم میں دکھائی جانے والی اس کی کہانی کے ایک سو سال گزر جانے کے بعد بھی یانوسِک کی ناانصافی کے خلاف جدوجہد بہت سے لوگوں کو متاثر کر رہی ہے۔