دو امریکی کمپیوٹر سائنس دانوں نے دس لاکھ ڈالر کا ‘ٹورنگ ایوارڈ’ کے نام سے دیا جانے والا انعام جیتا ہے جسے کمپیوٹر کے شعبے کا نوبیل انعام بھی کہا جاتا ہے۔ انہیں یہ اعزاز اپنی پیشہ وارانہ زندگیوں کے اوائل میں سمارٹ فون، ٹیبلٹ اور اربوں کی تعداد میں دوسرے آلات کو برقی توانائی مہیا کرنے والے مائیکرو پراسیسر بنانے کا نیا طریقہ دریافت کرنے پر دیا گیا۔
جان ہینیسی اور ڈیوڈ پیٹرسن نے 1980 کی دہائی کے آغاز میں سٹینفورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے میں دو علیحدہ علیحدہ تجربہ گاہوں میں یہ تیزتر طریقہ پیش کیا جسے ابتدا میں چپ بنانے والی کمپنیوں نے نظرانداز کر دیا۔ مگر مارکیٹ میں اِن کی اس جدت طرازی کی پذیرائی کی گئی۔
آج ہر سال بننے والے 16 ارب مائیکرو پراسیسروں میں سے 99 فیصد میں انہی کا طریقہ استعمال ہوتا ہے۔ اس میں ایسی چپس استعمال کی جاتی ہیں جنہیں ڈیسک ٹاپ اور بڑے حجم کے کمپیوٹروں میں استعمال ہونے والے آلات کی نسبت بہت کم تعداد میں ٹرانسسٹر اور تھوڑی سی برقی توانائی درکار ہوتی ہے۔
پیٹرسن نے اس ایجاد کے لیے ‘رڈیوسڈ انسٹرکشن سیٹ کمپیوٹر (آر آئی ایس سی) مائیکرو پراسیسر کی اصطلاح وضع کی۔
65 سالہ ہینیسی سٹینفورڈ یونیورسٹی کے صدر بنے اور 70 سالہ پیٹرسن برکلے میں اعزازی پروفیسر ہیں تاہم اب بھی وہ ٹورنگ ایوارڈز کی مالی معاونت کرنے والی کمپنی گوگل کے لیے متحرک محققین کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ہینیسی گوگل کی مالک کمپنی ‘الفابیٹ’ کے بورڈ کی سربراہ بھی ہیں۔
ان دونوں ماہرین تعلیم نے تجارتی شعبے میں بھی قسمت آزمائی کی اور باہم مل کر کمپیوٹر سازی: ایک مقداری سوچ کے عنوان سے نصابی کتاب لکھی جس نے کمپیوٹر کے شعبے میں مزید ترقی کے لیے انجینئروں اور سائنس دانوں کی کئی نسلوں کو تحریک دی۔
یہ ایوارڈ مشہور برطانوی کمپیوٹر سائنس دان ایلن ٹورنگ کے نام سے موسوم ہے جن کی ‘انِگما’ مشین نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے خفیہ اشاروں میں لکھے جانے والے پیغامات کا پتہ چلانے میں مدد دی تھی۔
Alan Turing: Algorithms, Computation, Machines | BISR April 2016 | @BISRGodel @steadyblogging @fgshprd | https://t.co/XhNIMV8oer pic.twitter.com/KgXCxt6jNK
— Brooklyn Institute (@BklynInstitute) March 3, 2017
خطرات مول لینے سے مت گھبرائیے
ہینیسی یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ آغاز میں انہیں “کمپیوٹر کی صنعت کے بہت سے شعبوں کی جانب سے بے حد مزاحمت” کا سامنا کرنا پڑا۔
پیٹرسن بتاتے ہیں، “لوگ کہتے تھے، ‘بات تو یقیناً ٹھیک ہے مگر حقیقی دنیا میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔’ ”
غیر روائتی سوچ رکھنے والے نوجوانوں کے لیے ان کا پیغام کیا ہے؟
پیٹرسن کہتے ہیں، “دلیر بنیں۔ خطرات مول لینے سے مت گھبرائیں۔”
ہینیسی کا کہنا ہے، “وہی کریں جو آپ کو پسند ہے۔ اگر آپ اپنے کام سے مخلص ہیں تو پھر جذبے اور توانائی سے کام کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔”
ٹورنگ ایوارڈ ‘ایسوسی ایشن فار کمپیوٹنگ مشینری’ کی جانب سے دیا جاتا ہے۔ یہ پیشہ ور افراد پر مشتمل سوسائٹی ہے اور دنیا بھر میں اس کے ایک لاکھ سے زیادہ ممبر ہیں۔ گزشتہ برس یہ انعام “ورلڈ وائیڈ ویب” کے موجد، سر ٹم برنرز لی کو دیا گیا تھا۔