پوری دنیا کا ایک سمندر ہے۔ یہ پانی کا اتنا بڑا حصہ ہے جو زمین کے 71 فیصد رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ جغرافیاتی لحاظ سے یہ سمندر پانچ طاسوں میں یعنی اوقیانوس، الکاہل، ہند، آرکٹک اور جنوبی حصے میں منقسم ہے۔
صحت مند کرہ ارض کے لیے صحت مند سمندر ضروری ہے۔ پانچ طاسوں کے باہمی انحصار اور سمندری ماحول کے انسانی انحصار کو سمندروں کے عالمی دن 2202 کے موقع پر 8 جون کو اجاگر کیا جائے گا جس کے مرکزی نقطے کا عنوان “مزید تقویت پہنچانا: سمندر کے لیے اجتماعی اقدام” ہوگا۔
ذیل میں آپس میں ایک دوسرے سے جڑے پانچ خطرات کے ساتھ ساتھ اِن میں سے ہر ایک خطرے سے نمٹنے کے طریقے بھی بتائے جا رہے ہیں۔ یہ سب مل کر سمندروں کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گئے ہیں:-
آب و ہوا کی تبدیلی

آب و ہوا کی تبدیلی بھی ایک سمندری بحران ہے۔ 1980 کی دہائی کے بعد سے سمندر انسان کی پیدا کردہ کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراجوں کا 20 سے 30 فیصد جذب کر چکا ہے۔ گزشتہ 50 برسوں میں زمین پر پیدا ہونے والی حدت کا 90 فیصد سے زائد سمندروں میں پیدا ہوا ہے۔
کیونکہ سمندر روز بروز زیادہ گرمی اور کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کر رہا ہے، اس لیے سمندری سطح کے درجہ حرارت، سمندر میں پانی کی سطحوں اور سمندر کی تیزابیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے طوفانوں میں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات میں اضافہ اور سمندری انواع کو نقصان اور حیاتیاتی تنوع کا ضیاع ہو سکتا ہے۔
سمندر کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر امریکہ 2050ء تک گرین ہاؤس گیس کے اخراجوں کی مجموعی مقدار صفر پر لانے کی کوششوں میں مدد کر رہا ہے۔ سمندروں میں کاربن ڈائی آکسائڈ کم کرنے کے اقدامات میں ساحلوں پر قابل تجدید توانائی کی پیداوار میں اضافہ، سمندری جہازوں اور بندرگاہوں پر اخراجوں میں کمیاں، اور تمر اور سمندری گھاس جیسے “نیلے کاربن” جیسے ماحولیات کے ساحلی نظام کی بحالیاں شامل ہیں جو کہ نہ صرف کاربن ڈائی آکسائد کو جذب کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائڈ کا ذخیرہ کرتے ہیں بلکہ ساحلوں کا تحفظ بھی کرتے ہیں۔
ناپائیدار ماہی گیری

مچھلی تین ارب سے زائد لوگوں کو غذائیت فراہم کرتی ہے اور دنیا کی 12 فیصد آبادی کے ذرائع معاش میں مدد کرتی ہے۔ مگر دنیا میں مچھلی کے ذخیروں کے ایک تہائی حصے سے ایسے مچھلیاں پکڑی جا رہی ہیں جن سے ان ذخیروں کی محفوظ سطحوں کو نقصان پہچ رہا ہے۔
حد سے زیادہ مچھلیاں پکڑنے سے پورا ماحولیاتی نظام متاثر ہوتا ہے، مچھلیوں کے ذخیرے گھٹ جاتے ہیں اور سمندری کچھووں جیسی کمزور انواع خطرات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ حد سے زیادہ مچھلیاں پکڑنے سے ماہی گیروں کے ذرائع معاش طویل مدتی خطرات کی زد میں آ جاتے ہیں۔
امداد باہمی، اور سائنسی بنیادوں پر قوانین کی تشکیل کی امریکہ بھرپور حمایت کرتا ہے تاکہ ماہی گیری کو طویل مدت تک پائیدار بنانے کو یقینی بنایا جا سکے۔ امریکہ مچھلی کے ساتھ “حادثاتی طور پر” دیگر سمندری مخلوق کے پکڑے جانے کو کم کرنے پر بھی کام کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر، دیگر ممالک سے امریکہ میں درآمد کیے جانے والے کیکڑوں کے سلسلے میں امریکہ نے یہ شرط لگا رکھی ہے کہ وہ ایسے طریقے سے نہ پکڑے گئے ہوں جن سے سے خطرات کے شکار کچھووں کو نقصان پہنچتا ہو۔
غیرقانونی، چوری چھپے اور خلاف ضابطہ ماہی گیری

غیرقانونی، چوری چھپے اور خلاف ضابطہ (آئی یو یو) ماہی گیری کا شمار اُن سنگین ترین مشکلات میں ہوتا ہے جو بین الاقوامی ماہی گیری کو در پیش ہیں۔ اس طرح کی ماہی گیری سے دنیا کو اربوں ڈالر سالانہ کا نقصان ہوتا ہے۔ اس سے اُن ساحلی آبادیوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے جن کی آمدنی اور خوراک کا انحصار پائیدار ماہی گیری پر ہے۔
آئی یو یو ماہی گیری میں منی لانڈرنگ، منشیات اور جبری مشقت سمیت انسانوں کی سمگلنگ جیسی مجرمانہ سرگرمیاں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔
امریکہ آئی یو یو ماہی گیری سے نمٹنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر ایسے بین الاقوامی قوانین بنانے پرکام کر رہا ہے جن سے دنیا کے ممالک کو اپنے ماہی گیر جہازوں اور اپنے پانیوں کی نگرانی کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ امریکہ مضبوط کثیرالمملکتی پروگرام اور معیارات بھی مقرر کرنا چاہتا ہے۔ اس کی ایک مثال “پورٹ سٹیٹ مییرز ایگریمنٹ” ہے۔ بندر گاہوں سے متعلق یہ ایسے سرکاری اقدامات سے متعلق ایک سمجھوتہ ہے جو سمندری غذا کی تجارت کی نگرانی میں اضافہ کرتے ہیں اور آئی یو یو طریقوں سے پکڑی جانے والی مچھلیوں کے مارکیٹ میں فروخت کے لیے لائے جانے کی روک تھام کرتے ہیں۔
آلودگی

سائنس دانوں کے تخمینے کے مطابق 136 ملین میٹرک ٹن پلاسٹک سمندروں میں موجود ہے اور اس میں 7 ملین میٹرک ٹن سالانہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک دفعہ جب پلاسٹک پانی میں داخل ہو جائے تو یہ پوری طرح ختم نہیں ہوتا۔ اس میں مچھلی، سمندری پرندے، کچھوے اور سمندری ممالیہ جانور یا تو پھنس سکتے ہیں یا وہ اسے خوراک سمجھ کر کھا سکتے ہیں۔
امریکہ ملک کے اندر سمندری ملبے کو کم کرنے کا کام کر رہا ہے اور دوسرے ممالک کی مچھلیاں پکڑنے کے سامان کے سمندر میں پھینکے جانے کو روکنے کے طریقے تلاش کرنے سمیت کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے انتظام کو بہتر بنانے میں مدد کر رہا ہے۔ امریکہ سمندروں میں پلاسٹک کے کچرے کو کم کرنے کی جدت طرازی پر تحقیق کرنے اور اسے فروغ دینے کا کام بھی کر رہا ہے۔
زوال پذیر سمندری حیاتیاتی تنوع

سمندری زندگی کو درپیش خطرات کے پیش نظر، ایسے محفوظ سمندری علاقے قائم کرنا اہم ہے جن میں حیاتیاتی تنوع اور انتہائی اہم پناہ گاہوں کو تحفظ حاصل ہو سکے، ماہی گیری میں مدد کی جا سکے، کاربن کو جمع کر کے اس کا محفوظ طریقے سے ذخیرہ کیا جا سکے، اور سمندر مین خطرات برداشت کرنے کی لچک پیدا کی جا سکتے۔
امریکہ نے 2030ء تک 30 فیصد امریکی زمینوں اور پانیوں کو محفوظ بنانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ گوکہ محفوظگی کے زیادہ تر علاقے ساحل سے نسبتاً زیادہ قریب ہیں، مگر انٹارکٹکا کے ارد گرد کے پانیوں کی طرح کھلے سمندروں میں بھی ایسے علاقے ہیں جنہیں تحفظ کی ضرورت ہے۔ امریکہ جنوبی سمندر اور دنیا میں ہر ایک مقام پر محفوظ سمندری علاقوں کی حمایت کرتا چلا آ رہا ہے۔
یہ مضمون اس سے قبل 3 جون 2021 کو بھی شائع ہو چکا ہے۔