سمندروں میں بہہ کر آنے والا پلاسٹک کا کچرا برسوں سے دنیا بھر کے سمندروں میں جمع ہو رہا ہے اور یہ ایسی مقامی صنعتوں کو، بالخصوص سیاحت اور آبی ماحول کو، نقصان پہنچا رہا ہے جن کا انحصار سمندروں اور ساحلی پانیوں پر ہے۔

امریکہ کی “انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ فنانس کارپوریشن (ڈی ایف سی) کی سمندری پلاسٹک کا منصوبہ شروع کرنے کی ایک وجہ معیشت کو مضبوط بنانے میں مدد کرنا بھی ہے۔ مخصوص پراجیکٹوں میں مدد کر کے اس منصوبے کے تحت سمندروں اور آبی گزرگاہوں میں پھینکے جانے والے پلاسٹک کی مقدار کم کی جائے گی اور پلاسٹک کے موجودہ ملبے کو صاف کیا جائے گا۔

 سمندری تہہ میں دیگر کچرے کے درمیان پڑا ہوا چہرے پر لگانے والا ایک ماسک اور دستانے۔ (© Andrey Nekrasov/Barcroft Media/Getty Images)
مصر کے بحیرہ احمر میں واقع سمندری علاقے شرم الشیخ کی تہہ میں چہرے پر لگانے والے ماسک اور پلاسٹک کا کچرا جا بجا بکھرا پڑا ہوا ہے۔ (© Andrey Nekrasov/Barcroft Media/Getty Images)

ڈی ایف سی کا مقصد 2.5 ارب ڈالر مالیت کے بنیادی ڈھانچوں کے ایسے پراجیکٹوں میں سرمایہ کاری کو مہمیز دینا ہے جن سے ترقی پذیر ممالک کے سمندروں میں گرنے والا پلاسٹک کا کچرا کم ہوگا۔ اس سرمایہ کاری سے مندرجہ ذیل کاموں میں مدد ملے گی:-

  • پلاسٹک کے کچرے کو توانائی میں تبدیل کرنا۔
  • پلاسٹک کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانا۔
  • پلاسٹک کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا۔
  • سمندروں سے کچرا صاف کرنا۔
  • ایسی مصنوعات کی تیاری کو فروغ دینا جن میں پلاسٹک نہ استعمال کیا جاتا ہو۔

اس وقت دنیا کے سمندروں میں موجود 150 ملین میٹرک ٹن پلاسٹک سے آلودگی پھیل رہی ہے اور اس مقدار میں ہر سال 11 ملین میٹرک ٹن کا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ (برسبیل تذکرہ، 10 ملین میٹرک ٹن لگ بھگ 100 طیار بردار بحری جہازوں کے وزن کے برابر ہوتا ہے۔)

یہ آلودگی معیشتوں اور لوگوں کے روزگاروں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ ایشیا – پیسیفک اکنامک کوآپریشن فورم (اے پی ای سی) یعنی ایشیا – بحرالکاہل کے اقتصادی تعاون کے فورم کی 2020ء کی رپورٹ کے مطابق سمندری کچرے سے اے پی ای سی معیشتوں کو صرف ایک سال میں ماہی گیری اور آبی ماحول، سمندری آمد و رفت، جہاز سازی اور سمندری سیاحت کے شعبوں میں 11.2 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔

 مسائل کی جڑیں

پلاسٹک کا زیادہ تر کچرا زمینی ذرائع سے آتا ہے۔ خاص طور پر اُن ترقی پذیر ممالک کے تیزی سے پھیلتے ہوئے شہری علاقوں سے یہ کچرا آتا ہے جہاں پر کچرے کو ٹھکانے لگانے کے ناقص بندوبست، پلاسٹک کے بڑھتے ہوئے استعمال کے نتیجے میں روزبروز بڑھتے ہوئے کچرے پر قابو پانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

انڈونیشیا، فلپائن، ویت نام، سری لنکا، تھائی لینڈ، ملائشیا، مصر اور نائجیریا اُن ممالک میں شامل ہیں جو پلاسٹک کی آلودگی کے منبعے ہیں۔ (اپنی ہی رپورٹنگ کے مطابق، عوامی جمہوریہ چین بھی آلودگی پیدا کرنے والے ایک بڑا ملک ہے مگر ڈی ایف سی وہاں پار سرمایہ کاریوں کی حمایت نہیں کرتا۔)

 مسائل کے حل

پلاسٹک صاف کرنے میں ڈی ایف سی ایسی تجاویز کو اہمیت دے گی جو امریکہ اور افریقہ کے درمیان تجارت کو (جزوی طور پر امریکی حکومت  کے خوشحال افریقہ کے منصوبے کے ذریعے)  فروغ دیں گیں اور عورتوں کی (جزوی طور پر عورتوں کے  ٹو ایکس منصوبے کے ذریعے) مدد کریں گیں یا بحرہند و بحرالکاہل کے منصوبے کے مقاصد کو آگے بڑھائیں گی۔

 ساحل پر بکھرے کچرے کے بیچوں بیچ دو بالٹیاں اٹھا کر چلتا ہوا ایک آدمی (© Jes Aznar/Getty Images)
18 اپریل 2018 کو منیلا، فلپائن کے ساحل پر بکھرے پلاسٹک کے کچرے کے درمیان ایک آدمی مچھلیاں اٹھائے جا رہا ہے۔ (© Jes Aznar/Getty Images)

سمندری پلاسٹک کے منصوبے سے ساحلی علاقوں کی آبادیوں کے لیے پانی کی گزرگاہوں کو صاف رکھ کر معاشی فوائد پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

چیف ایگزیکٹو افسر، ایڈم بوہلر نے ایک بیان میں کہا، “ڈی ایف سی کے سمندری پلاسٹک کے منصوبے کے تحت نجی سرمایہ کاری کو مہمیز دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔” اُنہوں نے مزید کہا کہ اِن پراجیکٹوں سے “ابھرتی ہوئی معیشتوں کو مدد ملے گی، (اور) معاشی نمو اور ترقی کو فروغ حاصل ہوگا۔”