ایک سو ملین سال سے زائد عرصے سے سمندری کچھوے دنیا کے بڑے بڑے سمندروں میں تیرتے چلے آ رہے ہیں۔ تاہم آج ڈائناسور دور کی زندہ ان باقیات کی بقا خطرے میں پڑ چکی ہے۔

سات انواع میں سے تین یعنی سبز، ہاکس بِل، کیمپ کے رڈلی سمندری کچھوے فطرت کے تحفظ کی بین الاقوامی یونین نامی ایک غیر منفعتی تنظیم کی جانب سے جاری کی جانے والے معدومیت سے دوچار ریڈ لِسٹ کی اُن انواع میں شامل ہیں جنہں معدومیت کے معمولی خطرات یا انتہائی شدید خطرات کا سامنا ہے۔ مزید تین یعنی لیدر بیک، ہلکے سبز رنگ کے رڈلی اور لاگر ہیڈ انواع کے سمندری کچھوے “زد پذیر” کچھووں کی فہرست میں شامل ہیں۔ جبکہ فلیٹ بیک سمندری کچھووں کی معدومیت کی حیثیت کا درست تعین کرنے کے لیے کافی مقدار میں اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔

لوگ ایک سمندری کچھوے کو واپس پانی میں جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں (© Bruce Smith/AP Images)
ریاست جنوبی کیرولائنا میں حیوانیات کے ڈاکٹروں کی جانب سے علاج کے بعد لیدر بیک نوع کے سمندری کچھوے کو سمندر میں چھوڑا جا رہا ہے۔ اِس نوع کے کچھووں کا وزن 1,500 پاؤنڈ تک ہو سکتا ہے۔ (© Bruce Smith/AP Images)

تحفظ پسند ماہرین سمندری ماحولیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرنے والے سمندری کچھووں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔

لیدر بیکس اور ہاکس بِل نوع کے کچھوے بالترتیب جیلی فِش اور اسفنجوں کو قابو میں رکھتے ہیں۔ سبز سمندری کچھوے وہ سمندری گھاس کھاتے ہیں جسے چھوٹا رکھنا اس لیے بہت ضروری ہوتا ہے تاکہ مچھلیوں کی بہت سی انواع اِس میں پرورش پا سکیں۔

خطرات سے نمٹنا

“بائی کیچ” یعنی سمندری مخلوق پکڑنے پر مرکوز ماہی گیری کے ادھورے طریقوں سے حادثاتی طور پر کچھووں کو پکڑنا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ایک اور مسئلہ ساحلی ترقی ہے کیونکہ سمندری کچھوے ساحلوں پر آکر انڈے دیتے ہیں اور اِن کے ننھے منے بچوں کے لیے یہ انتہائی ضروری ہوتا ہے کہ وہ بغیر کسی دقت کے واپس سمندر میں جا سکیں۔

امریکی محکمہ خارجہ میں (فطری حیات کے) تحفظ کے دفتر کی سربراہ کرسٹین ڈاسن “فطرت اور اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ حیاتیاتی تنوع کے اُس تباہ کن نقصان” کا حوالہ دیتے ہوئے، اسے سب سے زیادہ پریشان کن رجحان قرار دیتی ہیں۔

سمندری کچھوے کا بچہ ریت سے پانی کی لہر کی جانب بڑھ رہا ہے (© Marco Ugarte/AP Images)
سیولیتا، میکسیکو میں ایک اولیو رڈلی سمندری کچھوے کا چھوٹا سا بچہ سمندر کی جانب رینگ رہا ہے۔ (© Marco Ugarte/AP Images)

انہوں نے کہا، “یہ صورت حال اُس وقت پیچیدہ ہو جاتی ہے جب جنگلی حیات کی ایک بہت بڑی تعداد کو دنیا بھر میں ادھر اُدھر کیا جاتا ہے جس میں جنگلی حیات کی سمگلنگ سے پیسے بنانے والے منظم مجرمانہ گروہ مدد کرتے ہیں۔” اس میں کچھووں کے انڈوں، خول اور گوشت کی تجارت کی بلیک مارکیٹ بھی شامل ہے۔

محکمہ خارجہ کے جوزف فٹ کے مطابق ایک اچھی خبر بھی ہے۔ مخففاً ٹیڈ کہلانے والے کچھووں کو علیحدہ کرنے والے آلات تجارتی ماہی گیروں کے ہاتھوں حادثاتی طور پر کچھووں کے پکڑنے کے واقعات کو کم کر رہے ہیں۔ فٹ کہتے ہیں کہ ایسے ممالک میں جہاں کچھ عرصے سے ماہی گیر ٹیڈ آلات استعمال کر رہے ہیں وہاں پر اس امر کی وسیع پیمانے کی قبولیت اور تعریف سامنے آئی ہے کہ ٹیڈ آلات نہ صرف سمندری کچھووں کو بچاتے ہیں بلکہ ماہی گیری کو بھی زیادہ موثر بھی بناتے ہیں۔

انہوں نے کہا اس کے علاوہ تین دیگر کاوشیں سمندری کچھووں کو زندگی کے تحفظ کا موقع فراہم کر سکتی ہیں یعنی انڈے دینے کے عرصے کے دوران ساحلوں کا تحفظ؛ سمندری کچھووں اور اُن کے انڈوں کے استعمال کے خلاف جنگ؛ اور اِن کے خولوں اور گوشت کی سمگلنگ کے خلاف جنگ۔

ڈاسن نے کہا کہ سمگلنگ کو”ایک سنگین منظم جرم کی حیثیت سے” اعلٰی سطح کی توجہ حاصل ہو رہی ہے۔ “بین الاقوامی تنظیمیں، حکومتیں، غیر سرکاری تنظیمیں اور متاثرہ کمیونٹیاں جنگلی حیات کی سمگلنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے روزافزوں عقل مندی سے اور عمدہ طریقے سے کام کر رہی ہیں اور تحفظاتی جرائم کی دیگر شکلوں کے ساتھ اِن کے تال میل اور طریقہائے کاروں کو جانتی جا رہی ہیں۔

بین الاقوامی تعاون

سمندری کچھووں کو بچانے کے لیے مزید جدت طرازیاں بھی جاری ہیں۔ اِن میں روشن عمودی جالوں کے ذریعے مچھلیوں کو گلپھڑوں سے جال میں پھنسا کر پکڑنا شامل ہے۔ اس قسم کے جالوں کے تجربات پیرو، میکسیکو، انڈونیشیا اور دیگر ممالک میں کیے جا رہے ہیں۔ امریکی محکمہ داخلہ کے ماہی گیری اور جنگلی حیات کے ادارے کی ماہر، این میری لاریٹسین نے بتایا کہ “پانی میں پھینکے جانے والے “روشن جالوں کا پہلا تجربہ لگ بھگ ایک دہائی قبل شروع ہوا۔”

انہوں نے بتایا، “حادثاتی طور پر جال میں پھنسنے والے سمندری کچھووں کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رات کے وقت مچھلیوں کو گلپھڑوں سے پکڑنے میں استعمال ہونے والے مخصوص روشن جال (کچھووں کو) تحفظ فراہم کرنے کا موثر ذریعہ ہوں۔ تجربات جاری ہیں تاکہ ہم مختلف ماحولیاتی حالات میں روشن جالوں کے موثرپن کو جانچ سکیں اور یہ سمجھ سکیں کہ کیا اس سے کچھووں کی انواع پر کوئی اثرات مرتب ہوتے بھی ہیں یا نہیں۔”

ڈنڈوں اور ٹیپ سے ساحل پر کچھوے کے انڈے دینے کی جگہ کی نشاندہی کی گئی ہے (© Wilfredo Lee/AP Images)
سرف سائیڈ، فلوریڈا میں کچھوے کے انڈے دینے کی جگہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ (© Wilfredo Lee/AP Images)

فٹ نے کہا کہ امریکی فش اینڈ وائلڈ لائف سروس دنیا بھر میں حکومتوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ “سمندری کچھووں پر تحقیق کرنے اور دوسروں کو اس میں شامل کرنے، انڈے دینے والے مقامات کی حفاظت کرنے، اور سمندری کچھووں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے اُن پر ٹیگ لگانے کا کام کرتی ہے۔” اسی طرح نیشنل میرین فشریز سروس (سمندری ماہی گیری کا محکمہ) سمندری کچھووں کو پہنچنے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے دنیا بھر میں ماہی گیری کے بہتر طریقے ڈھونڈ رہا ہے اور اِن پر تحقیق کر رہی ہے۔

محکمہ خارجہ دونوں اداروں کی کاوشوں میں ہاتھ بٹاتا ہے اور ایک ایسا پروگرام چلاتا ہے جس کے تحت جھینگے پکڑنے والے ممالک کے ایسے طریقوں کی تصدیق کی جاتی ہے جو کچھووں کو نقصان نہ پہنچاتے ہوں۔

سمندری کچھووں کے تحفظ اور بچاؤ کا بین الامریکی کنونشن امریکی براعظموں اور کیریبیئن کے رکن ممالک کے پانیوں میں کچھووں کی چھ انواع اور اُن علاقوں کو جہاں وہ پائے جاتے ہیں تحفظ، بچاؤ اور افزائش کو فروغ دیتا ہے۔

 یہ مضمون اس سے قبل جون 11 2020  کو شائع ہو چکا ہے