سائنسی مطالعے کی خاطر کسی وہیل کو کافی دیر تک روکے رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ وہیل مچھلیوں پر تحقیق کرنے والے، لین کر کو یاد ہے کہ ان کی ذہنی کیفیت اس وقت کیسی ہوتی تھی جب ایک کے بعد دوسری وہیل عین اس وقت غوطہ لگا کر زیرآب چلی جاتی تھی جب وہ اسکے ٹشو کا نمونہ لینے کی کوشش کر رہے ہوتے تھے۔ انہوں نے سوچا، ” دوستو، اس کام کو کرنے کا لازماً کوئی آسان طریقہ ڈھونڈنا چاہیے۔”
لہذا کیر کے ذہن میں ایک عجیب وغریب ترکیب آئی۔ انہوں نے میسا چوسٹس میں اپنے روبوٹک کلب کی ہفتہ وار سرگرمیوں میں کالج کے طلبا اور سکول کے بچوں کی مدد سے وہیل کے مطالعے کے لیے ایک سستے سے چار پنکھوں والے ڈرون میں کچھ تبدیلیاں کیں۔ وہیل جب اپنے نتھنوں سے اپنی سانس فضا میں چھوڑتی ہے تو یہ ڈرون اس سانس میں سے پرواز کرتے ہوئے وہ قیمتی ڈیٹا اکٹھا کر لیتا ہے جس میں وہیل کا ڈی این اے، بیکٹیریا اور دیگر کیمیکل شامل ہوتے ہیں۔
لیکن ڈرون کو کوئی نام دینا ضروری تھا۔ ایک طالب علم نے با آوازِ بلند صدا لگائی، “سناٹ باٹ”۔
اور پھر یہ نام چپک کر رہ گیا۔
سناٹ باٹ کی پرواز کا آغاز
کیر، ڈرون کو سطح سمندر پر فضا میں چھوڑتے ہیں اور ایک کمپیوٹر کو استعمال کرتے ہوئے اسے وہیل کے اوپر اڑاتے ہیں۔ وہیل کے سانس لینے کے لیے پانی کی سطح پر آنے کے منظر کو کیر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں، ” واہ واہ وہ کیا منظر ہوتا ہے ــــ جب آپ کو کیمرے کا لینز وہیل کے نتھنوں سے نکلنے والی رطوبت سے بھرا ہوا نظرآئے تو سمجھ لیجیے کہ آپ نے نمونے حاصل کرلیے ہیں۔ ”
کیر نے اپنے طلبا کی کوڈ تیار کرنے کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک ایسا صوتی آلہ تیار کیا جو مسلسل سطح سمندر سے سناٹ باٹ کی بلندی سے متعلق معلومات مہیا کرتا رہتا ہے۔ ان معلومات سے ڈرون کو کنٹرول کرنے والا پائلٹ وہیلوں کے بصری مشاہدے پر توجہ مرکوز کرسکتا ہے۔
بحیرۂ کورٹیز میں جس کو میکسیکو نے تین اطراف سے گھیرا ہوا ہے، سناٹ باٹ کو ایک بہت بڑی بلیو وہیل کے قریب پہنچاتے ہوئے کیرکے ہاتھ کا نپ اٹھے۔ کرہ ارض پر پائے جانے والے جانوروں میں سے سب سے بڑے جانور کو دیکھ کر، کیر کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ وہ کہتے ہیں، ” میں نے آج تک جتنے کام کیے ہیں یہ ان سب میں سے دلچسپ ترین ــــــ اورڈرانے والے کام تھا۔”
نئی تکنیکیں
کیر نے کہا، “میں نہیں سمجھتا کہ لوگ اس بات کا اندازہ لگا سکیں گے کہ یہ کتنا بڑا کام ہے۔”
وہیل کی ناک کی رطوبت سے ہر قسم کی جینیاتی معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔ ہارمونز سے پتہ چل سکتا ہے کہ جانورکے اعصاب پر دباؤ ہے یا یہ زچگی کے مراحل میں ہے۔ جراثیم سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کسی صحت مند وہیل کے معدے میں کیا ہے۔

سناٹ باٹ نے ارجنٹینا کے قریبی سمندر میں رائٹ وہیل اور میکسیکو کے قریبی سمندرمیں بلیو وہیل کا مطالعہ کیا ہے۔ کیر نے حال ہی میں الاسکا کے قریب ہمپ وہیلوں پر کام کرتے ہوئے ہر 18 منٹ میں ایک وہیل کی ناک کی رطوبت کا نمونہ حاصل کیا۔ سناٹ باٹ نے جوکام ایک دن میں کیا وہی کام ایک تحقیقی بحری جہاز پر کئی ہفتوں میں کیا جاتا ہے۔
وہیل کی زندگی میں مُخل نہ ہونے والی سناٹ باٹ کی تکنیک نے دنیا بھر کے سائنس دانوں کو متاثر کیا ہے۔ کیر نے ایک سائنس دان کو حیرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے سنا، “مجھے پتہ نہیں تھا کہ وہیل ایسے کرتی ہےـــــ ذرا دیکھیے تو یہ اپنے دُمدار حصے کو کس طرح ہلا رہی ہے۔” ان کا اشارہ وہیل کی دُم کی دو لَوؤں کی جانب تھا۔
کیر اوشن الائنس کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ وہ سناٹ باٹ کی پروازوں کو سٹیزن یعنی عوامی سائنس دانوں کے لیے کھول دیں گے۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ کوئی بھی وہیل مچھلیوں کو قریب سے دیکھ سکے گا۔
کیر نے کہا کہ ہر جگہ سٹیزن سائنس میں عام شہریوں کی شرکت کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
“اگرآپ مستقبل میں اس چیز کے امکان پر غور کریں ـــــ یعنی سٹیزن سائنس، ٹیلی پریزینس، یعنی ٹیلی فون یا انٹرنیٹ کے ذریعے عام لوگوں کی شرکت ـــــ تو یہ عنصر ایک لحاظ سے بنی نوع انسان اور مختلف اقوام کو قریب لا رہا ہے۔ اور یہ یقیناً بہت خوشی کی بات ہے۔”