سنتھیا یو کا ہاتھ امریکی نوجوانوں کی نبض پر ہے۔

سنتھیا یو مائکروفون کے ذریعے تقریر کر رہی ہیں (Courtesy of Cynthia Yue)
(Courtesy of Cynthia Yue)

امریکی ریاست ٹینیسی کی رہنے والی سنتھیا یو، “یو این اے – یو ایس اے کی یوتھ آبزرور” یعنی اقوام متحدہ میں امریکہ کی نوجوان مبصر ہیں اور اپنی اس حیثیت میں وہ عالمی مسائل پر امریکی نوجوانوں کی آواز کے سنے جانے کو یقینی بناتی ہیں۔

[یو این اے-یو ایس اے] یعنی “امریکی ایسوسی ایشن برائے اقوام متحدہ”  ایک غیر منفعتی ادارہ ہے اور گزشتہ ایک دہائی سے یہ ایسوسی ایشن ہر برس نوجوان مبصرین کو اقوام متحدہ کے نیویارک کے ہیڈ کوارٹر میں بھیج کر امریکیوں میں اقوام متحدہ کی حمایت میں اضافہ کرتی چلی آ رہی ہے۔

امریکہ کے دو ہفتے کے دورے کے دوران سنتھیا یو نے 900 نوجوان امریکیوں کو اپنی ترجیحات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سنا۔ ہو سکتا ہے کہ نوجوانوں کو یہ علم نہ ہو کہ وہ اقوام متحدہ کے 17 پائیدار ترقی کے اہداف میں سے کچھ کے نام لے رہے ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق اقدامات، غربت کا خاتمہ اور عدم مساوات کو کم کرنا اُن کے خدشات میں سرفہرست تھے۔ جن نوعمر لوگوں سے سنتھیا یو ملیں اُن میں سے چالیس فیصد نے موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق اقدامات کو اپنی اولین عالمی ترجیح قرار دیا جبکہ ایک بڑے حصے نے عدم مساوات کو کم کرنے پر بھی زور دیا۔

سنتھیا یو نے کہا کہ”میں نے کم نمائندگی والی امریکی ریاستوں، سکولوں اور کمیونٹیوں میں جانے پر توجہ دی تاکہ روائتی طور پر نظر انداز کیے جانے والے شعبوں کے بارے میں نوجوانوں کی ترجیحات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکوں۔” اس مقصد کے لیے انہوں نے امریکہ کے جنوبی، بحرالکاہل سے لگنے والے امریکہ کے شمال مغربی، اور وسطی مغرب کے علاقوں میں دیہی کمیونٹیوں میں جا کر بات کی۔ اپنے دورے کے دوران وہ تاریخی طور پرسیاہ فام کالجوں، یونیورسٹیوں اور اُن تعلیمی اداروں کے طالب علم رہنماؤں سے بھی ملیں جو اقلیتوں کو تعلیمی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔

شمولیت کو فروغ دینا

سنتھیا یو نے بتایا کہ لوگوں کے خیالات جاننے کے اس دورے کے دوران “اقوام متحدہ کے بارے میں افسانوں کو احترام کے ساتھ رفع کرنے کے قابل ہونا، اور اپنے ہم عمروں میں امید اور اعتماد پیدا کرنا، حیرت انگیز طور پرایک فائدہ مند تجربہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ گروپوں کی شکل میں آنے والوں میں شامل اُن کے بہت سے ہم عمر “ذہنوں میں شکوک و شبہات لیے آتے تھے” مگر اُن مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات “اٹھانے کا عزم لیے رخصت ہوتے تھے” جن پر ملاقات کے دوران بات چیت کا جاتی تھی۔

 جِل بائیڈن نوجوانوں کے ساتھ بیٹھیں ہوئی اور ہاتھ میں مائکروفون پکڑے بات کر رہی ہیں جبکہ پس منظر میں ذہنی صحت کے سائن لگے ہوئے ہیں (© Tasos Katopodis/Getty Images for MTV Entertainment)
سنتھیا یو [اوپر دائیں] خاتون اول جِل بائیڈن کو مئی میں وائٹ ہاؤس میں ذہنی صحت کے بارے میں منعقد کیے گئے نوجوانوں کے ایک فورم میں خطاب کرتے ہوئے سن رہی ہیں۔ (© Tasos Katopodis/Getty Images for MTV Entertainment)

مستقل پرایک نظر

سنتھیا یو اپنی عالمی دلچسپیوں کو “انسانی حقوق یعنی بچوں کا تحفظ، ذہنی صحت، تنوع، مساوات، پائیداری سے جڑا قرار دیتی ہیں۔”

“میرے دادا ایک جنگ، غربت اور بھوک سے تباہ شدہ ملک [چین] میں پلے بڑھے اور میں اپنے خاندان کے بہت سے بچوں کی ایسی اموات کے بارے میں سُن کر بڑی ہوئی جنہیں روکا جا سکتا تھا۔ اپنے خاندان کی ماضی کی کہانیوں کو سننے نے میرے عالمی نکتہ نظر کی صورت گری کی اور میں جو کام کرنا چاہتی ہوں” اس کا تعلق بچوں اور نوجوانوں سے متعلقہ مسائل کو حل کرنے سے ہے۔

سنتھیا یو نے نوجوان مبصر کے طور پر جرمنی، آسٹریا، پیرو، آئرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، ہنگری، جنوبی کوریا اور ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے نوجوان مندوبین کے ساتھ دوستیاں بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ “میں اُن کی دوستیوں کے لیے اُن کی بہت مشکور ہوں” اور اس کے ساتھ ساتھ وہ “دنیا بھر کے نوجوانوں کو یہ دکھانے پر بھی” شکرگزار ہیں کہ آج “امریکی سفارت کاری اور نوجوانوں کی با اختیاری سے جڑا امریکی عزم پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔”

ایسے میں جب سنتھیا یوعوامی خدمت کے شعبے میں اپنے پیشہ ورانہ مستقبل کے لیے تیاری کی خاطر ہارورڈ یونیورسٹی سے پبلک پالیسی میں ایم اے کرنے جا رہی ہیں تو وہ اقوام متحدہ  میں انہوں نے جو کچھ دیکھا ہے اُس سے سیکھے گئے اسباق پر نظر ڈالتے ہوئے کہتی ہیں کہ “مجھے امید ہے کہ میں ایک ایسے فرد کے طور پر قیادت کروں گی جو آنے والے کل کو آج سے بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہوگا۔”