ایشیائی نژاد امریکی سائنس دانوں کی خدمات دنیا کے لوگوں کو لمبی عمریں پانے اور صحت مند زندگیاں گزارنے میں معاون ثاب ہو رہی ہیں۔
ایشیائی نژاد امریکی ڈاکٹروں اور محققین نے سب سے پہلے ایچ آئی وی/ایڈز کا علاج دریافت کیا، مریضوں کی دیکھ بھال کو بہتر بنایا، صحت کی سہولتوں میں عدم مساوات کو ختم کیا، اور اس متعدی بیمارے کو پھیلنے سے روکا۔
امریکہ ہر سال مئی میں ایشیائی نژاد امریکیوں، ہوائی کے مقامی باشندوں، اور بحرالکاہل کے جزائر کے لوگوں کو امریکی ثقافت اور معاشرے میں اُن کے اہم کردار پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ انہیں مخففاً اے اے این ایچ پی آئی بھی کہا جاتا ہے۔ اُن کی خدمات میں امریکہ کے مشرقی ساحل سے لے کر مغربی ساحل تک بچھائی جانے والی ریلوے لائنیں، ہالی ووڈ کی فلموں میں ادا کیے جانے والے مرکزی کردار اور مستقبل کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنا شامل ہے۔
اس سال ایشیائی نژاد امریکیوں، ہوائی کے مقامی باشندوں، اور بحرالکاہل کے جزائر کے لوگوں کے ورثے کے مہینے کے موقع پر شیئر امیریکا اُن بہت سے اے اے این ایچ پی آئی محققین کی خدمات کو اجاگر کر رہا ہے جنہوں نے میڈیکل سائنس کو فروغ دیا اور پوری دنیا کے لوگوں کی صحتوں کو بہتر بنایا۔
ایچ آئی وی/ایڈز کے خلاف جنگ
ایچ آئی وی/ایڈز کی تشخیص اور علاج میں ایشیائی نژاد امریکی محققین کی جدت طرازیوں سے اس بیماری کے خلاف امریکی جنگ میں مدد ملی۔ اس کے نتیجے میں ایڈز سے نمٹنے کے لیے امریکی صدر کے ہنگامی صوبے (پیپ فار) کے ذریعے 25 ملین افراد کی جانیں بچائی گئیں۔
متعدی بیماریوں کی ماہر چینی نژاد امریکی فلاسی وونگ-سٹال 1980 کی دہائی میں امریکہ کے قومی ادارے کی اُس ٹیم میں شامل تھیں جس نے ایڈز کا سبب بننے والے وائرس دریافت کی۔ اُنہوں نے ایچ آئی وی کی جو نقشہ سازی اور کلوننگ کی اس کے نتیجے میں حقائق کی بنیاد پر وائرس کی تشخیص ہوئی اور اس کے مدافعتی نظام سے بچ نکلنے کے طریقے کو سمجھنے میں اضافہ ہوا۔
ہانگ کانگ میں بڑی ہونے والیں وونگ-سٹال تعلیم کے لیے امریکہ آئیں۔ محققین نے کووڈ-19 سمیت دیگر وائرسوں پر اُن کے تحقیقی طریقوں کو اپنایا۔ وونگ-سٹال کا انتقال 2020 میں ہوا۔v

فلپائنی نژاد امریکی ڈاکٹر اور سائنسدان ڈاکٹر کیتھرین لوزوریاگا نے بچوں میں ایچ آئی وی کی تشخیص کے لیے ابتدائی ٹیسٹ اور مریض بچوں کے لیے جدید اینٹی ریٹرو وائرل علاج وضح کیے ۔
گیانا میں پیدا ہونے والی متعدی بیماریوں کی ماہر امریکی ڈیبرا پرساؤڈ کے ساتھ مل کر کیے جانے والے لوزوریاگا کے کام کے نتیجے میں بھی 2013 میں ایچ آئی وی کے پہلے ایسے مریض بچے میں اس بیماری کی تشخیص ہوئی جس میں بظاہر کوئی علامت نہیں پائی جاتی تھی۔
مریضوں کی دیکھ بھال میں بہتری لانا
ڈاکٹر ابراہم ورگیز طبی نگہداشت کے دوران مریضوں کے تجربے پر زیادہ غور کرنے کے حق میں ہیں۔ انہوں نےMy Own Country: A Doctor’s Story [میرا اپنا ملک: ایک ڈاکٹر کی کہانی] کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔
ورگیز کے والدین کا تعلق بھارت سے تھا۔ انہوں نے ایتھوپیا میں پرورش پائی۔ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے امریکہ آئے اور 1980 کی دہائی سے پہلے انہوں نے اس وقت ٹینیسی میں ایچ آئی وی/ایڈز کے مریضوں کی دیکھ بھال کی جب ایسے مریضوں کے لیے کوئی علاج دستیاب نہیں تھا۔ شدید بیمار مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے ان کی توجہ مریض کے لیے ہمدردی پر مرکوز رہتی تھی۔v

صحت کی سہولتوں میں موجود عدم مساوات سے نمٹنا
ڈاکٹر مارجری ماؤ کی تحقیق میں توجہ کا مرکز ہوائی کے مقامی باشندوں میں پائی جانے والیں ذیابیطس اور دل کی بیماریاں ہیں۔ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو عام امریکیوں کے مقابلے میں ذیابیطس اور فالج سے موت واقع ہونے کے زیادہ خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔
ماؤ ہوائی کی پہلی انڈوکرونولوجی کی ماہر ڈاکٹر ہیں۔ وہ وزن میں کمی اور ذیابیطس کی روک تھام اور علاج کے پروگراموں کے ذریعے صحت کے بہتر نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اِن پروگراموں میں ڈاکٹر ماؤ ایسے ماڈل استعمال کرتی ہیں جو ہوائی کی مقامی کمیونٹیوں کی زبان اور ثقافت کو مدنظر رکھ کر تیار کیے گئے ہوتے ہیں۔
متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنا
جب پیٹر سائی نے ایئر فلٹر میں استعمال ہونے والا میٹریل ایجاد کیا تو اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن یہ ٹکنالوجی کووڈ-19 وبا کے دوران لاکھوں جانیں بچانے کا سبب بنے گی۔ یاد رہے کہ اُن کے تیار کردہ میٹریل سے ہی این 95 ماسک تیار کیے جاتے ہیں۔
تائیوان کے رہنے والے سائی 1980 کی دہائی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ آئے۔ بعد میں انہوں نے یونیورسٹی آف ٹینیسی کے محققین کی اُس ٹیم کی قیادت کی جس نے تعمیرات کے شعبے میں کام کرنے والوں کو گرد یا بیکٹیریا سے محفوظ رکھنے کے لیے خاص قسم کا میٹیریل تیار کیا۔ بعد میں اسی میٹریل سے کووڈ-19 کے دوران استعمال کیے جانے والے این 95 ماسک بنانے میں مدد ملی۔

جب 1996 میں بیماریوں پر قابو پانے اور اُن کی روک تھام کے مراکز کو پتہ چلا کہ این 95 ماسک وائرسوں کو انسانی جسم میں داخلے کو بھی روکتے ہیں تو طبی شعبے میں کام کرنے والوں نے بھی این 95 ماسک پہننا شروع کر دیئے۔ کووڈ-19 کی وبا پھوٹنے کے وقت گو کہ سائی ریٹائر ہو چکے تھے مگر انہوں نے یہ پتہ لگانے کے لیے دوبارہ کام شروع کر دیا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس وبا سے بچانے کے لیے این 95 ماسک کو کس طرح محفوظ طریقے سے دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سائی نے کہا کہ “میری ایجاد ایک غیرمعمولی دور میں محض ایک عام سی ایجاد ہے۔”