
ايشنا مہيپال سے يہ نا پوچھيں کہ آيا انھيں اس بات کا افسوس ہے کہ جس ٹيم کو انھوں نے فرسٹ گلوبل چيلنج عالمی ربوٹکس مقابلے ميں بھيجا، وہ کامياب نا ہو سکی۔
مہيپال جو کہ 38 برس کی ہيں ينگ ہيلپ سورينام کی بانی ہيں جو کہ سالانہ مقابلے کے ليے ربوٹکس کی نوجوان ٹيم کی تربيت کرتا ہے، آپ کو بتائيں گی کہ مقابلے کا اس بات سے کوئ تعلق نہيں ہے کہ اپنے مخالفين کو زير کيا جاۓ۔
بلکہ ان کا يہ کہنا ہے کہ مقابلے کا تعلق اس بات سے ہے کہ سورينام کے طالب علموں کی اگلی نسل کو اس بات کے ليے آمادہ کيا جاۓ کہ وہ مل کر کام کريں اور ايسے روبوٹ بنائيں جو ہمارے دور کے اہم معاملات کو حل کريں جيسے کہ توانائ کو مزيد پائيدار بنانا اور آلودہ سمندروں کو صاف کرنا۔
“اس کا مقصد نۓ طالب علموں کو اس متحرک کرنے والے تجربے کا حصہ بنانا ہے تا کہ وہ ہم خيال ساتھيوں کے ساتھ جڑ سکيں” مہيپال کا کہنہ ہے کہ “اس تمام کا مقصد دوستی اور شراکت داری ہے جو يہ بناتے ہيں”۔
مہيپال امريکی وزارت خارجہ کے تبادلے کے پروگرام “ينگ ليڈرز آف دی امريکز اينیشيايٹو” کی سال 2016 کی سابقہ طالب علم ہيں۔ اس پروگرام کے توسط سے لاطينی امريکہ اور چھوٹے جزائر غرب الہند کے لوگوں کو سالانہ 250 وظائف ديے جاتے ہيں۔

يہ وظائف وصول کنندگان کی مدد کرتے ہيں تاکہ وہ کاروباری صلاحيتوں کو جلا بخش کے اقدامات اٹھا سکيں۔ ينگ ہيلپ سورينام کی روح رواں کی حيثيت سے مہيپال نے امريکہ ميں کل چھ ہفتے گزارے جس دوران انھوں نے کاروباری جزيات پر مہارت حاصل کی اور جانسن سی اسمتھ يونيورسٹی ميں دو امريکی اساتذہ کی سرپرستی ميں کام کيا، جو کہ تاريخی اعتبار سے شمالی کيرولينا ميں سياہ فام يونيورسٹی رہی ہے۔
اس تجربے نے انھيں ديگر نوجوان کامياب اور بااثر لوگوں سے ملا ديا جنھوں نے بڑا خواب ديکھنے کی ہمت کی۔ مہيپال کا کہنا ہے کہ “زندگی ميں پہلی بار [ميں نے] لوگوں کے ايسے گروہ کو ديکھا جن کے پاس بھی ايسے ہی عجيب خيالات تھے جيسے کہ ميرے پاس تھے”۔
ان روابط کے ذريعے مہيپال نے سورينام سے تعلق رکھنے والی ربوٹکس کی ايک ٹيم کے بارے ميں جانا اور پھر اس کی منتظمی پر آمادگی ظاہر کی جو واشنگٹن ميں دنيا بھر سے آنے والی ٹيموں کے خلاف مقابلہ کرنے والی تھی۔ قريب دو ماہ کے عرصے ميں انھوں نے سوشل ميڈيا اور اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوۓ تين طالب علموں اور ان کے سرپرست پر مبنی ايک ٹيم تشکيل دی۔ ان طالب علموں کو ربوٹکس کے بارے ميں کوئ علم نہيں تھا، تاہم وہ سيکھنے کے ليے بے چين تھے۔ اس ابتدائ گروپ نے مقابلے ميں 163 ٹيموں ميں 49 ويں پوزيشن حاصل کی۔
ان طالب علموں نے سال 2018 ميں ميکسيکو سٹی ميں ہونے والے مقابلے ميں شامل ٹيم کے ليے سرپرستوں اور ساتھيوں کا کردار ادا کيا۔ اس ٹيم نے 161 شامل ٹيموں ميں 103 ويں پوزيشن حاصل کی۔ سال 2019 ميں دبئ ميں ہونے والے مقابلے ميں شامل 189 ٹيموں ميں 148 ويں پوزيشن حاصل کی۔ علاوہ ازيں سال 2019 ميں فاؤنڈيشن کے “ٹيک جينيس پراجيکٹ” ميں بھی شرکت کی جو ربوٹکس کی تربيت کے ساتھ رياضی، انجينيرنگ، ٹکنالوجی اور سائنس کے بارے ميں شعور اجاگر کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔

مہيپال کا کہنا ہے کہ زيادہ اہم يہ ہے کہ مقابلوں کے ذريعے مزيد دروازے کھلتے ہيں۔
ايک طالب علم سرپرست نے حکومت کے زير اثر ٹيلی کميونيکشن کمپنی ٹيلی سر ميں پروگرامنگ کی نوکری حاصل کر لی۔ ايک بالغ سرپرست نے امريکی وزارت خارجہ کے انٹرنيشنل وزيٹر ليڈرشپ پروگرام ميں جگہ حاصل کر لی جس ميں بالغ کاروباری قائدين کا تبادلہ کیا جاتا ہے، علاوہ ازيں سرينام حکومت کی تيل کی کمپنی سٹاٹسولی ميں نوکری حاصل کر لی۔ ديگر کمپنيوں نے بھی ٹيم کے رکن طالب علموں کو انٹرنشپ دينے کی آفر ديں ہيں۔
سفارت خانے کے فنڈز کے ذريعے مہيپال کے ٹيک جينيس پراجيکٹ کے کچھ طالب علموں کے ليے سفر کرنا ممکن ہو سکا ہے تا کہ سرينام کی مقامی آبادی ميں روبوٹس کے حوالے سے تعليم دی جا سکے۔ مجموعی طور پر ربوٹکس پراجيکٹ قريب 400 سرينام طالب علموں تک پہنچ چکا ہے۔
يہ کالم فری لانس لکھاری لينور ٹی ايڈکنس نے لکھا تھا۔